قادر خان یوسف زئی
کئی بین الاقوامی تنظیموں کے دفاتر واقع ہونے کی وجہ سے جنیوا کو عالمی شہر کی حیثیت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق اراکین ممالک پر لازم ہے کہ مشترکہ مساعی سے عالمی امن اور تحفظ قائم کریں۔ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھایا جائے۔ بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لئے لوگوں کے دلوں میں عزت اور ایک ایسا مرکز پیدا کریں جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل سے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کا مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔ جنیوا نے پاکستان کی آزاد ریاست کے خلاف دشمن قوتوں کی بھارتی فنڈنگ سے جاری اشتہاری مہم کی اجازت دے کر عالمی قوانین اور خود جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کی، جو قابل مذمت ہے۔ جنیوا میں ’’آزاد بلوچستان‘‘ کے نام پر ملک دشمن تنظیم ’’بلوچ لبریشن آرمی‘‘ نے شہر کے مختلف علاقوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں پاکستان مخالف بینر اور اشتہاری مہم شروع کی ہوئی ہے۔ جنیوا ایک عالمی شہر کی حیثیت رکھتا ہے، وہ پاکستان مخالف اشتہاری مہم چلانے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ پاکستان آزاد مملکت ہے اور یہاں لسانی اکائیوں اور مذہبی و نسلی اقلیتوں کے تحفظ کے لئے قیام پاکستان سے کے لئے آج تک کوئی ایسے ریاستی اقدامات نہیں کیے گئے، جس سے ظاہر ہو کہ پاکستان میں کسی لسانی یا نسلی اکائی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے ریاست کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں مسلسل کی جاتی ہیں، لاپتا اور مسخ شدہ لاشوں کا ملنا قوم پرست جماعتوں کے درمیان باہمی چپقلش کا نتیجہ ہے، جس میں ریاست کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے لئے بھارت کی منصوبہ بندی پر یہ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ حساس اداروں نے بھارتی فنڈنگ سے قائم ایسے کئی نیٹ ورک کا خاتمہ کیا ہے جو مملکت کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ مسخ شدہ لاشوں اور شہریوں کے اغوا کے واقعات کی کمی بیّن ثبوت ہے کہ بھارت بلوچ علیحدگی پسند لیڈروں کا سہولت کار ہے۔ کل بھوشن یادو اور عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد انکشافات سے ثابت ہوچکا کہ بھارت، بلوچستان کے داخلی معاملات میں براہ راست مداخلت کررہا ہے۔
بلوچستان میں کسی ایک لسانی اکائی کی اکثریت نہیں۔ یہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جو پاکستان کے کْل رقبے کا 43.65 فیصد بنتا ہے۔ رواں سال 15 مارچ سے 25 مئی تک ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ، 23 لاکھ، 44 ہزار 408 نفوس پر مشتمل ہے۔
بلوچستان میں شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی، ایرانی بلوچستان میں سرگرم عمل جیش العدل اور کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے مشترکہ اہداف پر حملوں کے لئے خفیہ اتحاد قائم کیا ہوا ہے، جسے صوبے میں قیام امن کے لئے ہونے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک نئی سازش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بلوچ آزادی پسند جماعتوں بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ، بلوچستان ری پبلکن پارٹی، بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) اور بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شامل ہیں۔ بھارت نواز و علیحدگی پسندوں کے پے رول سے منسلک بعض سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکن بلوچستان کے مسئلے پر پاکستان مخالف لابنگ کا حصہ رہے ہیں۔ بلوچستان علیحدگی پسندوں کا موقف ہے کہ بلوچ اس خطے کی قدیم ترین اقوام میں سے ہے، ہم ہزاروں سال سے اس سرزمین پر آباد ہیں، 1839ء میں برطانوی قبضے کے وقت تک ہماری اپنی ریاست تھی جبکہ حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ برطانیہ حکومت نے براہوی ریاست سے جن علاقہ جات کو لیز پر لیا تھا ان کو (بلوچستان) کا نام دیا۔ یہی نام انگریز حکومت کے مفاد میں تھا، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ براہوی ریاست قائم رہے، 1970ء میں جب ون یونٹ ختم ہوا تو کچھ پشتون بیلٹ کو اور تمام براہوی ریاست یا براہویستان کو بغیر رائے شماری کے بلوچستان کا نام دیا، اس نام سے براہوی قوم کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔ براہوی نوجوان قتل ہورہے ہیں۔ براہوی زبان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ براہوی یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارا تہذیبی ورثہ بلوچوں کے نام منتقل کیا جارہا ہے۔ 20 اگست 1749ء کو نصیرخان براہوی قلات میں حاکم تھے اور ان کی سلطنت افغانستان، ایران، ہندوستانی پنجاب، سندھ اور پشاور تک تسلیم کی جاتی تھی اور ان کی فوج کو براہوی فوج کہا جاتا تھا۔ 11 اگست 1947ء کو جب یہ طے پا گیا کہ برطانوی اقتدار اعلیٰ کے ختم ہوتے ہی ہندوستان کی ریاستیں آزاد اور خودمختار ہوں گی اور اپنے لائحہ عمل کے مطابق آزاد ہوں گی، اس ایک نقطے پر میر احمد یار خان نے ریاست قلات کی آزادی کا اعلان کیا اور جمعے کے خطبے میں بار بار عظیم تر بلوچستان کی بات کی مگر جب 7 اور 17 مارچ 1948ء کو لسبیلہ اور مکران کی ریاستیں پاکستان میں شامل ہوگئیں۔ میر احمد یار خان نے اپنی ریاست قلات کے 27 مارچ 1948ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔
بلوچستان کی حقیقی تاریخ کو مسخ کرکے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ بلوچ قوم کے خلاف بھارتی سازشوں سے پاکستان میں متعدد مسائل کو جنم دیا گیا۔ بلوچستان میں فاٹا اور خیبرپختونخوا کی طرح فوجی آپریشن نہیں کیے گئے، بلوچستان میں قبائل کے درمیان وسائل پر قبضے کی جنگ میں تو مختلف قوموں کا نقصان ہوا، لیکن ریاست کی جانب سے ہمیشہ بلوچستان کے عسکریت پسندوں کو ناراض گروپ کہا جاتا ہے، انہیں دہشت گرد اور انتہاپسند کہہ کر ان کے خلاف سخت فوجی آپریشن سے گریز کیا گیا۔ مختلف گروہ عسکری مزاحمت ترک کرکے قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ بلوچستان کے کئی علیحدگی پسند رہنما بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ اللہ نذر بلوچ نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اپنے ویڈیو انٹرویو میں اس عزم کا اظہار بھی کیا تھاکہ پاک چین اقتصادی راہداری پر مزید حملے کیے جائیں گے۔ پاکستان چین تجارتی راہداری بلوچستان سے گزرتی ہے۔ اللہ نذر بلوچ کا کہنا تھا، ’’ہماری خواہش ہے کہ صرف بھارت ہی بلوچوں کی قومی جدوجہد کی سفارتی اور مالی مدد نہ کرے بلکہ پوری دنیا کو ایسا کرنا چاہئے۔‘‘
بلوچستان ری پبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی سوئٹزرلینڈ میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ وہ بھارت میں ’’سیاسی پناہ‘‘ کی درخواست دے چکے ہیں۔ کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کے رہنما براہمداغ بگٹی بلوچستان کی علیحدگی پسندکمیونٹی کے لئے بھارت سے اپنے دروازے کھولنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق انہوں نے بلوچستان کا معاملہ دنیا کے سامنے پیش کرنے پر بھارتی وزیراعظم کی کوششوں کو بھی سراہا۔ مودی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’پاکستان کو بلوچستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مبینہ ناانصافیوں کے لئے دنیا کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔‘‘ جس پر بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ان مظاہروں کے دوران شرکاء نے صوبے میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمے دار بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو ٹھہراتے ہوئے بھارتی حکومت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بلوچستان، پاکستان کا دِل ہے، اس کے خلاف کہیں بھی، کسی بھی قسم کی سازشیں ناقابل برداشت ہیں۔