Thursday, July 24, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ترکی۔۔ رجب طیب اردوان کی تاریخی فتح

محبوب علی

ترکی میں ہونے والی نئے صدارتی اختیارات کے وسیع تر تناظر میں ہونے والے انتخابات میں رجب طیب اردوان ایک مرتبہ پھر فتح یاب ہوئے، بقول ان کے انہوں نے اپنے مخالفین کو عثمانی تھپڑ رسید کیا ہے اور ووٹنگ کا ٹرن آؤٹ 90 فیصد سے زائد ہونا بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ تقریباً 53 فیصد سے زائد ووٹ لینے کے بعد ان کی جماعت نے پارلیمنٹ کی 600 میں سے 343نشستیں بھی اپن نام کرلیں، ان کے پانچ مخالف امیدواروں میں سے سب سے قریبی حریف محرم انجے محض 30 فیصد ووٹ حاصل کرسکے ان کے علاوہ کوئی امیدوار قابل ذکر ووٹ حاصل نہیں کرسکا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان انتخابات میں جیتنے کے لئے صدارتی امیدوار کو کم از کم 50 فیصد سے زائد ووٹ لینا ضروری تھے، اگر کوئی امیدوار اس حد تک نہ پہنچ پاتا تو اگلے مرحلے میں 7 جولائی کو دوبارہ انتخابی عمل کا انعقاد کیا جاتا۔ ترکی کے انتخابات کا دنیا کے 34 ممالک کے 650 سے زائد مبصرین نے کوریج کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر رجب طیب ایردوان نے کئی محاذوں پر شدید مخالفت کے باوجود اپنی مدت صدارت جوکہ نومبر 2019ء میں ختم ہورہی تھی اس سے ڈیڑھ برس قبل جون 2018ء میں الیکشن کروانے کا اعلان کیا تھا اور دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے بعد سے ترکی میں ایمرجنسی نافذ ہے۔
موجودہ انتخابات نئی آئینی ترمیمات کے تحت منعقد ہوئے ہیں جن کی ترک عوام نے گزشتہ سال اپریل میں منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں منظوری دی تھی جس کے بعد اب صدر کو وسیع اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔ ترمیم شدہ آئین میں 18 نئی شقیں شامل کی گئی ہیں اور وہ مکمل طور پر صدارتی طرز پر ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت دفاع، ملٹری عدالتیں اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو ختم کردیا جائے گا۔ نئے آئین کے مطابق ملک کا صدر مسلح افواج کا سربراہ ہوگا اور ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں چلانے کا ذمہ دار ہوگا، اس کے علاوہ صدر کے پاس ویٹو پاور کا اختیار بھی ہوگا جسے وہ پارلیمنٹ کے کسی بھی فیصلے کو منظور یا مسترد کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ وزیراعظم کا عہدہ ختم کردیا جائے گا لیکن انتخابات سے قبل صدر ملک کے نائب صدر کا تقرر کرسکتا ہے جیسا کہ امریکی نظام کے تحت ہوتا ہے، اس کے علاوہ نئے آئین کے مطابق صدر کا مواخذہ بھی ہوسکے گا اگر وہ ذاتی طور پر کسی جرم میں ملوث پائے گئے، اسی طرح ترکی میں جہاں متوازی طور پر ملٹری کورٹس قائم ہیں انہیں ختم کرکے اسٹیٹ کونسل اور ہائی کورٹس بنائی جائیں گی۔ پارلیمان کی نشستیں 550 سے بڑھا کر 600 کی تجویز بھی ہے۔
ماضی میں ترکی کو یورپ کا مرد بیمار قرار دیا جاتا تھا لیکن اب ترک قوم پر شاید یہ ضرب المثل صادق نہ آئے کیوں کہ ترک قوم نے گزشتہ 17 سالوں کے دوران اس صورتِ حال سے نجات پائی ہے اور اب ترکی عالمی سطح پر ایک باوقار اہمیت کا حامل ایک ملک بن چکا ہے۔ یہ صورتِ حال ترکی میں جمہوریت کے تسلسل، عوامی رائے میں استحکام اور ترکی کی منتخب قیادت کے جذبے و حوصلے کی بدولت پیدا ہوئی، مسلمان ممالک میں ترکی کا شمار سب سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا مذہب اسلام نہ ہوتا تو کب کا یہ ملک یورپی یونین میں شامل ہوچکا ہوتا۔ ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کا یہ ملک رواں صدی میں اپنی تیز رفتار ترقی اور مستحکم سیاسی صورتِ حال کی بدولت ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اگر ترکی کی داخلی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو وہ گزشتہ 15 سال کے دوران کافی بہتر رہی ہے اور اسے سیاسی استحکام حاصل رہا ہے، اگرچہ شام کے بحران اور کرد شورش کے مسائل نے ترکی کو پریشان کئے رکھا لیکن بہترین حکمت عملی سے ان معاملات پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ خاص طور پر آق پارٹی نے برسراقتدار آنے کے بعد سب سے پہلے داخلی مسائل کے حل کی طرف توجہ دی اور وہ ملک میں جاری کردوں کی شورش کو کافی حد تک قابو کرنے میں کامیاب رہی۔ ترک حکومت اور قیادت کے خلاف جس قدر اندرونی و بیرونی سازشیں اور اختلافات پیدا ہوئے منتخب قیادت نے اس کا نہایت حکمت و تدبر کے ساتھ سامنا کیا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ترکی نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک جتنی ترقی رجب طیب اردوان کے دور میں کی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ طیب اردوان جب سے برسراقتدار آئے ہیں انہوں نے جمہوری اصولوں پر حتی الامکان سمجھوتہ نہ کرنے کی روش اپنا رکھی ہے۔ عراق پر حملہ کے وقت امریکا شدید دباؤ کے باوجود اسے اپنے اڈے نہیں دیئے، صومالیہ جیسے اسلامی ملک جس سے کوئی تعلق قائم رکھنے کو روا نہیں انہوں نے اس ملک کو گلے لگایا۔ کئی سیاسی مبصرین انہیں ترکی کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں تو سیاسی مخالفین انہیں ڈکٹیٹر کا لقب دینے سے بھی نہیں چوکتے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ طیب اردوان ترکی کے بانی کمال اتاترک کے برابر اپنی شخصیت لانا چاہتے ہیں کہ جب بھی ترکی کی سیاسی تاریخ کا ذکر ہو تو ان کا ذکر اتاترک کے ساتھ کیا جائے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنے 15 سالہ دور حکومت میں ترکی کو معاشی طور پر ایک اعلیٰ مقام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب وہ برسراقتدار آئے تو ترکی کا جی ڈی پی 200 ارب ڈالرز تھا جو اب بڑھ کر 800 ارب ڈالرز ہوگیا ہے۔ ترکی دنیا کے ان چند گنے چنے ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں آمدنی میں عدم مساوات میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات ہر آدمی کو ارزاں نرخ پر دستیاب ہیں۔ تعمیرات کے شعبہ میں مواصلاتی ذرائع کو جدید سے جدید تر بنا دیا گیا ہے اور اس دوران انہوں نے عوامی ہاؤسنگ اسکیم کے منصوبے کے تحت لاکھوں گھر تعمیر کروائے۔ دلچسپ بات یہ ہے صدر ایردوان ممکنہ طور پر 2029ء تک صدر کے عہدہ پر متمکن رہ سکتے ہیں کیوں کہ موجودہ عام انتخابات جو 2019ء میں منعقد ہوئے ہیں اس کے بعد آئین کی رو سے پانچ پانچ سال کی دو مدتوں تک صدارات کا عہدہ سنبھالا جا سکتا ہے۔
رجب طیب اردوان کی پیدائش 26 فروری 1954ء میں استنبول شہر میں ہوئی۔ ان کے خاندان کا تعلق ترکی کے شمال مشرق میں واقع ریزا نامی شہر سے تھا۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ قاسم پاشا سے حاصل کی اور 1965ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد استنبول امام خطیب ہائی اسکول میں ماہرین سے تعلیم حاصل کی اور 1973ء میں میٹرک پاس کیا۔ اسی طرح دیگر اضافی مضامین کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایوب ہائی اسکول سے ڈپلومہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد مرمرہ یونیورسٹی کے کامرس و اکنامکس کے شعبہ میں داخلہ لیا اور 1981ء میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ سینٹ جانز، گرنے امریکن یونیورسٹی، جامعہ سرائیوو، جامعہ فاتح، جامعہ مال تپہ، جامعہ استنبول اور جامعہ حلب کی جانب سے رجب طیب اردوان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے نوازا گیا۔ فروری 2004ء میں جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول اور فروری 2009ء میں ایران کے دارالحکومت تہران نے رجب طیب اردوان کو اعزازی شہریت سے نوازا۔ اکتوبر 2009ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر رجب طیب اردوان کو پاکستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشانِ پاکستان سے نوازا گیا۔ رجب طیب اردگان اپنی ابتدئی جوانی سے مضبوط اجتماعی اور سیاسی زندگی کی جدوجہد کی وجہ سے مشہور تھے اور انہوں نے 1969ء سے لے کر 1982ء تک یعنی 14 سال کے درمیانی حصے میں اپنی ٹیم کے ساتھ اجتماعی کام کے تجربہ کی روشنی میں سلیقہ عمل اور ڈسپلن سیکھا۔

مطلقہ خبریں