اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1978ء میں تخفیف ِاسلحہ کا ہفتہ منانے کی قرارداد پاس کی تھی، 24 تا 30 اکتوبر تک اس ہفتے کو منانے کا مقصد تخفیف ِاسلحہ کے مسائل اور ان کی اہمیت کے بارے میں آگاہی اور بہتر تفہیم کو فروغ دینا ہے
ڈاکٹر صوفیہ یوسف
یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی بھی مسئلے کا حل جنگ نہیں، انسان صدیوں سے اپنے ہر مسئلے کا حل جنگ کے ذریعے ہی تلاش کرتا آیا ہے۔ جنگ کی خواہش وہ انسانی جبلت ہے جس پر تمام تر تہذیبی و سائنسی ترقی کے باوجود ابھی تک کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔ آج بھی دُنیا بھر میں سالانہ 1.9 ٹریلین ڈالر دفاعی اخراجات پر خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہر 15 سیکنڈ میں ایک بچہ غذائی قلت سے مر جاتا ہے۔ 78 کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ناکافی پیش رفت کی وجہ سے انسان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ جنگ ایک انتہائی پیچیدہ سماجی رجحان ہے جس کی وضاحت کسی ایک عنصر یا کسی ایک نقطہئ نظر سے نہیں کی جا سکتی۔ انسان تاریخ کے صفحات جہاں تشدد، جارحیت اور جنگوں کی داستان سناتے ہیں، وہیں قیامِ امن کی خواہش، دُنیا کو سب کے لئے محفوظ بنانے اور جنگ کے خوفناک نتائج کو محدود کرنے کی کوششوں کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔
ساتویں صدی قبل مسیح میں امپحیکٹونیک لیگ کے ذریعے یونانی شہری ریاستوں نے مشترکہ طور پر یہ طے کیا تھا کہ عبادت گاہوں پر حملے نہیں کئے جائیں گے اور جنگ کی صورت میں شہروں کو پانی کی فراہمی بھی منقطع نہیں کی جائے گی۔ 1675ء میں فرانس اور جرمنی نے تمام تر مخاصمت کے باوجود زہریلی گولیوں کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔ عالمی سیاسی نظام میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہوئے جنگ کے متعلق نظریات پچھلی تین صدیوں کے دوران کئی مراحل سے گزرے ہیں۔ اسلحہ پر کنٹرول اور تخفیفِ اسلحہ کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن یہ تمام کوششیں جنگوں اور ہتھیاروں کی بے قابو ہوتی دوڑ پر قابو پانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکیں۔
عالمی امن کی تحریکوں کا باقاعدہ آغاز 19 ویں صدی میں ہوا۔ ریاستوں کے درمیان موجود تنازعات کے حل کے لئے 1899ء تا 1907ء کے دوران نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں امن کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان کانفرنسوں میں تنازعات کے پُرامن حل اور تخفیفِ اسلحہ پر اتفاق نہ ہوسکا اور دُنیا کو پہلی جنگ عظیم کی ہولناکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر تخفیفِ اسلحہ کے لئے کوششوں کا آغاز کیا گیا۔ 1925ء میں جنیوا پروٹوکول کے ذریعے زہریلی گیس اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔ جنیوا کے مختلف کنونشنوں نے بین الاقوامی انسانی قانون کی بنیاد رکھی جیسے جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک وغیرہ۔ تخفیفِ اسلحہ کی پہلی عالمی کانفرنس 1932ء میں ہوئی تاہم اس کانفرنس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے اور دُنیا کو دوسری عالمی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس کا اختتام ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد ہوا۔ یہ دونوں شہر آج بھی ایٹم بم کے مضر اثرات کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ عہدِ حاضر میں ملکوں کے پاس جو جوہری ہتھیار موجود ہیں وہ اگست 1945ء کے ایٹم بم سے کئی گنا زیادہ تباہ کن طاقت کے حامل ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا اور اسلحہ کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہوگئی۔ 1960ء کی دہائی میں فریقین کے درمیان جزوی نیوکلیئر ٹیسٹ پر پابندی کا معاہدہ طے پایا۔ 1968ء میں جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ 1997ء میں کیمیائی ہتھیاروں کا کنونشن نافذ ہوا جس میں کیمیائی ہتھیاروں کو رکھنے پر پابندی عائد کی گئی۔ اکیسویں صدی میں تخفیفِ اسلحہ، ہتھیاروں کے کنٹرول اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اقدامات تو کئے جا رہے ہیں لیکن 2001ء سے لے کر آج تک دُنیا کے مختلف حصوں میں کشیدگی عروج پر ہے۔ یوکرین روس جنگ یورپ سمیت پوری دُنیا کو متاثر کررہی ہے۔ جوہری جنگ کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ انسانیت ایٹمی جنگ کے تاریک سائے میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ جوہری جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور نہ ہی کبھی لڑی جانی چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے باہمی تعاون کے ذریعے ہتھیاروں، خاص طور پر جوہری اسلحے کے پھیلاؤ کو مسترد کیا جائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1978ء میں تخفیفِ اسلحہ کا ہفتہ منانے کی قرارداد پاس کی تھی۔ 24 تا 30 اکتوبر تک اس ہفتے کو منانے کا مقصد تخفیفِ اسلحہ کے مسائل اور ان کی اہمیت کے بارے میں آگاہی اور بہتر تفہیم کو فروغ دینا ہے۔ 1995ء میں جنرل اسمبلی نے حکومتوں کے ساتھ این جی اوز کو بھی دعوت دی کہ وہ تخفیفِ اسلحہ کے ہفتہ میں فعال حصہ لیتی رہیں تاکہ تخفیفِ اسلحہ کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے انسانیت کو لاحق خطرات تشویش کا باعث ہیں۔ اسلحے کی غیرقانونی تجارت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نیوکلیئر و روایتی ہتھیاروں اور سائبر وار فیئر سے دوچار ہماری دُنیا میں امن و سلامتی، انسانی جانوں کے تحفظ، ریاستوں کے درمیان اعتماد کو فروغ دینے، مسلح تصادم کو روکنے اور ایک موثر اجتماعی سلامتی کے نظام کے قیام کے لئے ہتھیاروں کی بے قابو ہوتی دوڑ پر کنٹرول اور تخفیفِ اسلحہ نہایت اہم ہے۔ اقوامِ متحدہ اور اس کے مختلف ذیلی اداروں کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اقدامات تو کئے جارہے ہیں لیکن یہ اقدامات صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکیں گے جب دُنیا کے سب ممالک کے درمیان برابری کی سطح پر تعلقات کو استوار کیا جائے گا۔
دُنیا کی بڑی طاقت امریکا اپنی تکنیکی برتری کھونا نہیں چاہتا۔ بین الاقوامی معاہدوں کے پابند ہونے سے ہتھیاروں کی نئی ٹیکنالوجی جیسے میزائل ڈیفنس، ڈرونز اور پریسیشن گائیڈڈ مونیشن میں اس کی تکنیکی برتری متاثر ہوگی۔ اس کا یہ عمل دُنیا کے دوسرے ملکوں کو اپنے دفاع کو مضبوط کرنے اور اپنی سیکیورٹی کے لئے ہتھیاروں کی دوڑ میں دھکیل رہا ہے۔ یورپ اس وقت جنگ کے دہانے پر ہے، یوکرین روس جنگ کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ توانائی کے بحران کا خدشہ بڑھ رہا ہے، پوری دُنیا میں غذائی اجناس کی قلت اور اقتصادی کساد بازاری نے معیشتوں کو کمزور تر کردیا ہے۔ غربت افلاس اور بھوک کے دلدل میں انسان تیزی کے ساتھ دھنستا جارہا ہے۔ قرن افریقہ میں خشک سالی سے قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس سے 36 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔ دُنیا کے متعدد خطوں خصوصاً جنوبی ایشیا میں عدم اعتماد میں اضافے اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر امن و سلامتی کو مستحکم کرنے کے لئے تخفیفِ اسلحہ کے علاقائی نقطہئ نظر نے زیادہ مطابقت اور اہمیت اختیار کرلی ہے۔ بین الاقوامی امن و سلامتی کا انحصار علاقائی استحکام پر منحصر ہے۔
جنوبی ایشیا ایک ارب 99 کروڑ آبادی کا گھر ہے اور اس کی 29 فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے، اگر اس خطے کے ممالک اپنے عوام کے وسیع تر مفاد میں اپنے تنازعات کو گفت و شنید کے ذریعے سے حل کرلیں تو اپنی عوام کی فلاح و بہبود پر وہ سرمایہ خرچ کرسکیں گے جو اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوجاتا ہے۔ دُنیا کے گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد دھرتی کے کسی بھی خطے میں جنگ محلے میں لگی خطرناک آگ کی طرح بن گئی ہے جو ہوا کا رخ تھوڑا تبدیل ہونے سے کسی بھی وقت آپ کے گھر کا رخ کرسکتی ہے۔ اس لئے اب یہ دھرتی اور اس پر بسنے والے انسان ایٹمی ہتھیاروں کی ڈیپوز کے سامنے فساد کو برداشت کرنے کی طاقت کھو چکے ہیں، لہٰذا یہ وقت اسلحے میں جدت پیدا کرنے یا اس پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے موجود جوہری تجربات اور خطرات پر قابو پانے اور امن، ترقی و خوش حالی کے نئے اُفق تلاش کرنے کا ہے۔