افسانہ
عشرت زاہد
شاہدہ نے بمشکل آنکھیں کھولیں، تو پہلی نظر کمرے کی سفید چھت پر گئی۔ اسے ٹھنڈ کا احساس ہوا، شاید اے سی چل رہا تھا۔ ذرا حواس بحال ہوئے، تو اس نے محسوس کیا کہ وہ کسی اسپتال کے کمرے میں ہے۔ اس نے دائیں ہاتھ کو جنبش دینے کی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ تھوڑی کوشش کے بعد بایاں ہاتھ، دائیں ہاتھ پر لگایا، تو معلوم ہوا کہ اس پر پلستر لگا ہے۔ کروٹ لینے کی کوشش کی، مگر کمزوری کی وجہ سے ہل نہ سکی۔ تھک ہار کر اس نے دوبارہ آنکھیں موند لیں، تو صبح کا سارا منظر یاد آگیا۔
سرفراز دفتر جانے کے لئے نکل رہا تھا، وہ اللہ حافظ کہنے دروازے تک جا رہی تھی کہ اس نے سینٹر ٹیبل پر سرفراز کا موبائل رکھا دیکھا، وہ اُٹھانے کے لئے تیزی سے آگے بڑھی، تو اچانک اس کا پیر مڑ گیا اور گر پڑی، جس کی وجہ سے اُس نے ہاتھ میں درد کی شدید لہر اٹھتی محسوس کی اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ سرفراز گاڑی سے اُترا اور راحیل کی مدد سے شاہدہ کو اُٹھا کر صوفے پر لٹا دیا۔ جب اسے ہوش آیا، تو وہ ڈرائنگ روم کے صوفے پر لیٹی تھی اور وہاں کوئی موجود نہ تھا، جب کہ اس کا دایاں ہاتھ حرکت کرنے سے قاصر تھا۔
”دیکھو ذرا، صبح صبح کیسی مصیبت آن پڑی ہے، کبھی جو اس عورت نے مجھے کوئی سُکھ دیا ہو۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ میرے لئے یہ ہفتہ کاروباری حوالے سے کتنا اہم ہے۔ بیرونِ ملک سے لوگ آرہے ہیں، ان کے ساتھ کئی میٹنگز شیڈول ہیں اور یہ محترمہ ہاتھ تڑوا کر بیٹھ گئیں۔ اس نے ہمیشہ اسی طرح مجھے ستایا ہے۔“ سرفراز غصّے میں آگ بگولا ہو رہا تھا۔ ”پاپا! میں نے تو کبھی آنٹی کو آپ کو ستاتے نہیں دیکھا، وہ تو ہمیشہ آپ کا، میرا اور اس گھر کا بہت خیال رکھتی ہیں۔“ راحیل نے شاہدہ کی حمایت کی۔ ”ارے بیٹا، تمہیں کیا معلوم، یہ عین وقت پر ایسے الجھا دیتی ہے۔ اب کیا کروں ادھر لاکھوں کا پروجیکٹ، انویسٹرز کا معاملہ ہے، تو دوسری جانب ان کا ٹوٹا ہوا ہاتھ اور نڈھال طبیعت۔ سب توجہ حاصل کرنے کے حیلے بہانے ہیں۔ کیا ضرورت تھی بھاگم بھاگ میرا موبائل اُٹھانے کی؟ مصیبت کردی۔“ سرفراز بے حِسی سے بولا۔ ”خیر، اب تم ایک کام کرو، اسے اسپتال لے جاؤ، کیوں کہ میرا دفتر جانا بہت ضروری ہے۔ فارن ڈیلی گیٹس آنے سے قبل مجھے اسٹاف کے ساتھ ایک ضروری میٹنگ کرنی ہے۔ میں دفتر سے فارغ ہو کر سیدھا اسپتال آجاؤں گا۔ اور ہاں، ڈاکٹر سے کہنا کہ کچھ ایسا کرے کہ یہ جلدی ٹھیک ہوجائے، کیوں کہ مہمانوں کے ساتھ ان کی بیگمات بھی آرہی ہیں، تو ظاہر ہے وہ لوگ گھر بھی آئیں گے، تو اگر یہ بستر سے لگ گئی تو گھر کون سنبھالے گا۔“
سرفراز نے بیٹے کو ہدایات دیں اور فیکٹری چلا گیا۔ سرفراز یہ نہیں جانتا تھا کہ شاہدہ تک اس کی اور راحیل کی آواز جا رہی ہے۔ درد کی شدّت سے نڈھال شاہدہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے ہاتھ پہ لگی چوٹ سے زیادہ تکلیف پہنچ رہی ہے یا دل پر لگی چوٹ سے… ”اُفف… اتنی بے توقیری، ایسی بے وقعتی…یااللہ! کیا میری اس گھر میں، سرفراز کے دل میں کوئی حیثیت نہیں؟ اتنے برسوں کی خدمت، محبّت اور خلوص کا یہ صلہ دیا میرے شوہر نے…“ وہ سوچ میں پڑ گئی۔
پھر اس سے قبل کہ راحیل اسے اسپتال لے کر جاتا، اس کے دل میں اس قدر شدید درد اٹھا کہ اسے لگا کہ دل پسلیوں سے نکل کر باہر آ جائے گا، اس کا درد بڑھ کر الٹے ہاتھ اور پیٹھ کی طرف جا رہا تھا۔ وہ ملازمہ کو آواز دینا چاہتی تھی، مگر آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ اسی اثنا راحیل کمرے میں آیا اور اسے فی الفور اسپتال لے گیا اور اب وہ ایک نجی اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں پڑی تھی۔
”میں کس قدر بدنصیب ہوں کہ اتنے برس بعد بھی اپنے شوہر کا دل نہیں جیت سکی۔“ اسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے اس نے سوچا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، جو اس کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔ ”ارے واہ! آپ ہوش میں آگئیں، گڈ…اور آپ رو کیوں رہی ہیں؟ دیکھیں، اب آپ نے کسی قسم کی ٹینشن نہیں لینی۔ آپ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گی۔“ ڈاکٹر نے چیک اَپ کرتے ہوئے کہا۔ ”بہت درد ہو رہا ہے ہاتھ میں؟ ہڈّی ٹوٹ گئی ہے، اس لئے پلستر لگایا ہے اور ہاں، آپ کے دل نے بھی کوئی شرارت کی ہے، تو ذرا اس کا بھی خیال رکھیں اور خوش رہیں۔“
بغل میں کھڑی نرس نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، تو شاہدہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔ اب اس کی نظروں کے سامنے امّی، ابّو کا گھر تھا، جہاں وہ، اس کا ایک بھائی اور امّی ابّو رہتے تھے۔ بھائی اس سے چھوٹا اور سانولی سی شاہدہ سے بہت مختلف گورا اور خوب صورت تھا۔ پھر لڑکا ہونے کے سبب بھی وہ گھر بھر کا چہیتا تھا۔ حالاں کہ شاہدہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی، ہمیشہ کلاس میں اوّل آتی تھی، لیکن کبھی کوئی اس کی پذیرائی نہیں کرتا تھا۔ جب کہ بھائی کے کم نمبرز پر بھی اسے خوب داد دی جاتی۔
یہی وجہ تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ شاہدہ کو چپ لگ گئی۔ وہ ابّو سے تعریف کے دو بول سننے کے لئے کیا کیا جتن کرتی۔ کبھی ان کی ٹانگیں دباتی، تو کبھی بن مانگے ہی چائے پیش کر دیتی۔ مگر ان کے پیار کا حق دار صرف اکلوتا بیٹا ہی ٹھہرتا۔ البتہ امّی، شاہدہ سے بہت پیار کرتیں، مگر ابّو کی عدم توجہی، ڈانٹ پھٹکار نے انہیں بھی چڑچڑا کر دیا تھا۔ وقت گزرتا گیا، شاہدہ نے ایم ایس سی کرلیا اور اپنی ہی یونیورسٹی میں لیکچرار لگ گئی۔ اسی دوران امّی کا بھی انتقال ہوگیا اور شاہدہ مزید اکیلی ہوگئی۔
ابھی شاہدہ اپنی ماں کے غم سے باہر بھی نہ نکل پائی تھی کہ اس کے لئے اس کے ابّو کے دوست کے چھوٹے بھائی کا رشتہ آگیا، جن کی بیگم فوت ہو چکی تھیں اور ان کا ایک 10 سال کا بیٹا بھی تھا۔ یوں شاہدہ کے والد نے بنا کچھ سوچے سمجھے اپنی بیٹی کی شادی اس سے 15 سال بڑے شخص سے کردی۔ اور شاہدہ مسز سرفراز بن کر اس کے گھر آگئی۔ سرفراز کو شاہدہ سے کوئی انسیت نہیں تھی، وہ تو اسے بس گھر اور اس کا بیٹا سنبھالنے کے لئے لایا تھا۔
10 سالہ راحیل نے بھی اسے کبھی اپنی ماں کے رُوپ میں قبول نہیں کیا تھا۔ سرفراز اپنے بیٹے پر جان چھڑکتا تھا اور شاہدہ کی حیثیت ایک ملازمہ سے زیادہ نہ تھی۔ سرفراز رات، دن اپنا کاروبار وسیع کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا اور شاہدہ گھر کے کاموں میں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وقت تو گزر گیا، راحیل بھی بڑا ہوگیا، لیکن شاہدہ کی حیثیت میں کوئی بہتری نہ آئی۔
”عورت کی زندگی اس قدر مشکل کیوں ہے، وہ اس قدر بے وقعت کیوں سمجھی جاتی ہے؟“ شاہدہ نے سوچا کہ اسے رہ رہ کر سرفراز کا سرد رویّہ یاد آئے جا رہا تھا۔ ”ڈاکٹر صاحب! شاہدہ اب کیسی ہے؟“ سرفراز نے ڈاکٹر سے پوچھا۔ ”ابھی تو ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ صرف ہڈّی ہی نہیں ٹوٹی، دل کا دَورہ بھی پڑا ہے۔ دو، تین دن آئی سی یو میں رکھنا پڑے گا۔“ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ ”اوہو، پھر تو بڑی مشکل ہوجائے گی۔ اس ہفتے تو میں بہت مصروف رہوں گا اور بار بار یہاں کے چکّر بھی نہیں لگا سکتا۔ آپ لوگ اچھے سے اس کا دھیان رکھئے گا، کسی چیز کی ضرورت پڑے تو بتا دیجئے گا۔“
سرفراز نے بے نیازی سے کہا۔ ”آپ چاہیں، تو ان سے مل سکتے ہیں۔“ ڈاکٹر نے کہا۔ ”ہاں، اگر جاگ رہی ہے، تو مل لیتا ہوں۔ ویسے ڈاکٹر صاحب ایک ریکویسٹ ہے آپ سے، جتنی جلدی ہوسکے انہیں پیروں پہ کھڑا کردیں۔ اور روپے، پیسے کی بالکل فکر نہیں کریں، بس کسی بھی طرح اسے ٹھیک کردیں، ورنہ ہمارے گھر کا سارا نظام بگڑ جائے گا۔“ ”حیرت ہے، آپ کی بیوی آئی سی یو میں ہیں اور آپ کو ان کی ذرا بھی فکر نہیں۔ شاید آپ کو ان کی طبیعت کی سنگینی کا علم نہیں ہے۔ گھر لے جانے کے بعد بھی آپ کو ان کا بہت خیال رکھنا ہوگا۔“ سرفراز کی بات سن کر ڈاکٹر نے حیرت سے کہا۔ ”جی جی… ویسے اچھی بھلی تھی گھر پر، بس گری اور بستر پر لیٹ گئی، مجھے تو سمجھ نہیں آرہا کہ ہڈّی ٹوٹنے سے دل کا دورہ کیسے پڑ گیا؟“ سرفراز نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ”کوئی تو ٹینشن ہوگی، دل کا دورہ ایسے ہی نہیں پڑتا۔ خیر، آپ ان سے مل لیں، لیکن کوئی ایسی بات نہیں کیجئے گا، جس سے انہیں ٹینشن ہو۔“ ڈاکٹر نے انتباہی لہجے میں کہا۔
”شاہدہ! کیسی ہو؟“ سرفراز نے آواز دی، تو اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔ ”کیا حال ہے اور یہ ہارٹ اٹیک کا کیا قصّہ ہے؟ کہیں گھر کے کاموں سے بچنے اور توجّہ حاصل کرنے کی غرض سے تو ڈراما نہیں کر رہیں؟“ سرفراز کی بے مروتی عروج پر تھی۔ بس یہ سننا تھا کہ شاہدہ کے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی اور سانس اکھڑنے گی۔ نرس دوڑ کر آئی، مانیٹر دیکھا اور ڈاکٹر کو بلا لیا۔ سرفراز بھی پریشان ہو کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کا ایک جملہ شاہدہ کے لئے جان لیوا ثابت ہوگا۔ ڈاکٹرز اپنا کام کر چکے تھے اور شاہدہ کا دل کام کرنا بند کر چکا تھا۔ مانیٹر پر اب صرف سیدھی لکیریں دکھائی دے رہی تھیں اور شاہدہ اس دنیا کے جنجال سے آزاد ابدی نیند سو چکی تھی۔