چوہدری ذوالقرنین ہندل
اعزاز جیسے کتنے ہی انجینئرز ہوں گے جنہوں نے انٹرمیڈیٹ میں سخت محنت کی بدولت انجینئرنگ یونیورسٹیز میں داخلہ لیا ہوگا۔ یہ لمحات واقعی ان کے اور گھر والوں کیلئے مسرت کا باعث بنے ہوں گے۔ والدین کے چہروں کی چمک عیاں ہوتی ہوگی۔ بہت سی امیدوں اور خوابوں کی تعبیر میں، کامیابی کی راہ پر گامزن! ان کی آنکھوں کے تارے گھر کے آنگن کو روشن کررہے ہوں گے۔ جوں توں کرکے، قرض اٹھا کر، مزدوری کرکے، زیورات بیچ کر، یا پراپرٹی بیچ کر چار سال کی فیسیں اتاری ہوں گی۔ یہ کٹھن وقت والدین نے بڑی ہمت اور آس و اُمید سے گزار دیا ہوگا۔ ڈگری مکمل ہونے پر ’’کنووکیشن‘‘ کے موقع پر والدین کو اپنے چمکتے ستاروں کی مسکراہٹ میں اپنے خوابوں کی تکمیل نظر آرہی ہوگی۔
باعث فخر سارے خاندان کو مٹھائیاں کھلائی ہوں گی، مبارکبادیں وصول کی ہوں گی۔ مگر وقت کی رفتار تھی کہ کم نہ ہوئی نہ ہی ان مسرت بھرے لمحات کا دورانیہ بڑھا۔ کچھ عرصہ گزرا کہ چند انجینئرز ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ٹرینی انجینئرز بھرتی ہوگئے۔ کچھ کی سیاسی وابستگی اور شناسائی کام آگئی۔ کچھ کے والدین نے ہمت بڑھاتے ہوئے اپنے ستاروں کو مزید پڑھنے کے لئے بیرون ملک اور پاکستان میں داخلہ کروا دیا۔ اب آخری قسم کے انجینئرز جن کی تعداد شاید سب سے زیادہ ہے۔ یہ درمیانے طبقے سے ہوتے ہیں اور درحقیقت ان کے والدین اپنی ساری جمع پونجی حتیٰ کہ قرض لے کر بھی ان کی تعلیم پر صرف کرچکے ہوتے ہیں۔ اب انہی انجینئرز پر بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ عرصہ گزرتا ہے، مسلسل ناکامی کے باعث بہت سے اپنی فیلڈ بدل کر اسکول ٹیچر بن جاتے ہیں، سیلز مین بن جاتے ہیں اور یہاں تک کہ سی ایس ایس جیسے مقابلے کے امتحانوں کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ ذہنی دباؤ ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے، ڈپریشن میں اضافہ کے لئے رشتہ داروں کی پوچھ گچھ جلتی پہ تیل کا کام انجام دیتی ہے۔
ایسے مشکل حالات اور ڈپریشن کی حالت میں بہت سے انجینئرز غلط راہ اختیار کرتے ہیں۔ باقی بچنے والے انجینئرز کی قسم اعزاز والی ہے۔ اعزاز راولپنڈی سے نسٹ سے مکینیکل انجینئرنگ گریجویٹ تھا۔ جس نے مسلسل نوکری نہ حاصل کرنے پر ذہنی دباؤ و ڈپریشن سے ہمیشہ نجات کے لئے اکتوبر 2017ء کو خودکشی کا راستہ اختیار کیا، ایسے مزید کم ہمت نوجوان ہیں، جو خود کو الجھنوں سے آزاد کرکے والدین کی آنکھوں کا نور ہمیشہ کے لئے بے نور کر جاتے ہیں۔ یہ واقعات ہماری حکومت و معاشرے کی بدانتظامی کو عیاں کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں انجینئرنگ و ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ سرفہرست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ، روس، انگلینڈ، چائنا، جرمنی اور جاپان وغیرہ دنیا میں نمایاں ہیں۔ مگر ہمارا نظام تو یکسر مختلف ہے۔ ہمارے ہاں انجینئرز تھوک کے حساب سے تول کر بک رہے ہیں مگر پھر بھی خریدار انہیں خریدنے سے قاصر ہیں۔ آج ہمارے انجینئرز یونیورسٹیز میں بڑے بڑے پروجیکٹس بنا کر دنیا بھر میں نام کما رہے ہیں مگر ہماری حکومتیں بڑے پروجیکٹس پر اپنے انجینئرز کو موقع دینے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے شہر کراچی اور لاہور جتنے بڑے ممالک بھی مختلف مقامات پر ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہماری حکومت اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کی ناکامی کی انتہا یہ ہے کہ آج تک 2015، 2016 اور 2017ء کے انجینئرز فریش ہیں اور ٹرینی انجینئرز کی پوسٹوں پر اپلائی کررہے ہیں۔ آج بھی پاکستان بھر سے پچاس ہزار کے قریب انجینئرز بے روزگار ہیں۔ حکومت اور پی ای سی ہمیشہ سے ’’جاب پلیسمنٹ‘‘ میں ناکام رہی ہے۔ ڈسکاؤنٹ جیسے جھوٹے بہلاوے دیئے جا رہے ہیں۔ کیا فائدہ ایسے ڈسکاؤنٹ کا اگر سپروائزری سرٹیفکیٹ حاصل کر کے بھی روزگار نہیں ملنا؟ جب روزگار ہی نہیں تو کیا خریدیں کیسے ڈسکاؤنٹ استعمال کریں؟ ہماری حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ انہیں ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ نام سے آشنائی ہی نہیں۔ کوئی خبر و علم نہیں کہ کیسے اداروں کو کنٹرول کرنا ہے، ہماری ہاں ڈیمانڈ کہاں ہے، بھائی جتنی گنجائش ہے جس شعبے میں اسی حساب سے یونیورسٹیز کو سیٹیں آلاٹ کرو۔ اگر ’’سپلائی و ڈیمانڈ‘‘ کا علم ہی نہیں ہوگا تو ہمارے ادارے عدم توازن کا ہی شکار رہیں گے۔ ہماری حکومتیں جب بڑے پروجیکٹس پر فارن انجینئرز اور ورکرز کو لگاتی ہیں تو انجینیئرز کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔ طرح طرح کے سوال جنم لیتے ہیں۔ کیا ہمارے انجینئرز قابل نہیں؟
اگر ایسا ہے تو بیرون ملک جا کر یہ کامیاب کیوں ہوجاتے ہیں؟ ہمارے ہاں بہت سی کمپنیاں سوائے چند ملٹی نیشنل کے فریش انجینئرز کو بھرتی ہی نہیں کرتیں۔ بھائی کہاں سے لائیں یہ تجربہ موقع نہیں دو گے تو تجربہ کہاں سے آئے گا۔ اگر کوئی کمپنی فریش انجینیئرز کی پوسٹ نکالے بھی تو چھ ماہ کا تجربہ مانگ لیتی ہے۔ بہت سی چھوٹی کمپنیوں میں انجینئرز مزدوروں سے بھی کم اجرت پر کام کررہے ہیں۔ ایسے میں انجینئرز کی مایوسی میں اضافہ ہی ہوگا۔ یہ حالات تو ان انجینئرز کے ہیں جو پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ ہیں۔ آپ خود سوچ لیں کہ وہ انجینئرز اور ٹیکنالوجسٹ جو انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ نہیں ان کی بے بسی کا کیا عالم ہوگا؟ کیا بڑھتا ڈپریشن خودکشی کے لئے کافی نہیں؟ کیا ہمارا نظام و معاشرہ بلیووہیل جیسی خونی گیمز سے زیادہ بھیانک نہیں؟ کیا یہی قصور ہے ان انجینئرز کا کہ انہوں نے سوچا کہ اپنے وطن کی ترقی کے لئے انجینئرنگ و ٹیکنالوجی جیسی فیلڈ میں کام کریں گے؟ کون ان کی بے روزگاری کا حل نکالے گا؟ کیا کروڑوں نوکریوں میں ان کا بھی کوئی حصہ بنتا ہے؟ کیا لاکھوں گھروں میں انہیں بھی کوئی گھر ملے گا؟ یا یونہی ہر سال حکومت نے اپنا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نظر کرنا ہے؟ وقت ہے کہ ملک کا نوجوان سرمایہ مایوسیوں کی نظر ہونے سے بچایا جائے۔ اس سرمائے کو، ان کی جوان ہمت کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے۔ ذرا سوچئے!