زندگی کے رنگ سارے جب میسر ہوگئے ہم نے یہ دیکھا کہ ہم منظر سے باہر ہوگئے
6 فروری 1933ء ۔۔۔ 19 جنوری 2018ء
شیخ لیاقت علی
جمعۃ المبارک 19 جنوری 2018ء کو پاکستان کی دو مایہ ناز ہستیاں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ جن میں ایک ملک کے ممتاز کالم نویس، مصنف، دانشور و ڈرامہ نگار منو بھائی اور دوسرے پاکستان کے کثیرالجہتی ایٹمی پروگرام میں اہم کردار ادا کرنے والے سینئر ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اشفاق احمد شامل ہیں۔ بلاشبہ دونوں معتبر شخصیات اپنے اپنے شعبے میں پاکستان میں اہم مقام کی حامل ہیں اور ان کی خداداد صلاحیتوں کی پوری پاکستانی قوم معترف ہے اور رہے گی۔ سینئر صحافی، کالم نویس اور ڈرامہ نگار منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی نے 6 فروری 1933ء کو وزیرآباد میں جم لیا۔ اُن کے والد محمد عظیم قریشی ریلوے میں ملازم تھے اور ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے اسٹیشن ماسٹر بنے۔ منو بھائی کے دادا میاں غلام حیدر قریشی امام مسجد تھے اور گزر اوقات کے لئے وہ کتب کی جلد سازی اور کتابت بھی کیا کرتے تھے اور شاعری سے بھی شغف رکھتے تھے۔ منو بھائی اپنے دادا سے بے حد متاثر تھے اور بچپن و لڑکپن میں اکثر اُن کی گود میں بیٹھ کر نہایت اشتیاق کے ساتھ ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی ماہینوال، مرزا صاحبان، یوسف زلیخا اور الف لیلوی کہانیاں سنتے تھے جس سے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کو تقویت ملی، منو بھائی نے سال 1947ء میں وزیر آباد سے میٹرک پاس کیا اور مزید حصولِ تعلیم کے لئے گورنمنٹ کالج کیمبل پور (حالیہ اٹک) آگئے۔ یہاں اُن کے حلقہ احباب میں شفقت تنویر مرزا، منظور عارف اور عنایت الٰہی جیسے دوست شامل ہوئے۔ اس کالج میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پروفیسر عثمان اور مختار صدیقی جیسے قابل اساتذہ سے منو بھائی کو پڑھنے کا موقع ملا۔ پاکستان کے معروف پنجاب زبان کے شاعر شریف کنجاہی اُن کے سگے ماموں تھے اور اپنے ماموں کی وساطت سے منو بھائی معروف ادیب و شاعر احمد ندیم قاسمی سے ملے اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور منو بھائی شعراء و ادباء کے حلقے میں معروف ہوتے گئے۔ منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی کو احمد ندیم قاسمی نے ہی ’’منو بھائی‘‘ کا دل موہ لینے والا نام دیا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے کہ جب منو بھائی نے اخبار امروز (لاہور) کے ادبی صفحے کے لئے ایک نظم بھیجی تو احمد ندیم قاسمی نے اصل نام کاٹ کر وہاں منو بھائی لکھ دیا اور پھر زمانے نے دیکھا کہ منو بھائی نے ہمیشہ اس نام کی لاج رکھی۔ اُن کے والد کی خواہش تھی کہ بیٹا بھی اُن کی طرح ریلوے میں ملازمت حاصل کرے مگر منو بھائی کی طبیعت ریلوے کی ملازمت سے میل نہیں رکھتی تھی لہٰذا وہ راولپنڈی آگئے اور یہاں کے اخبار روزنامہ ’’تعمیر‘‘ میں بطور پروف ریڈر ملازمت کرلی اور اسی اخبار ہی سے انہوں نے ’’اوٹ پٹانگ‘‘ کے عنوان سے کالم نویسی کا بھی آغاز کیا۔ روزنامہ ’’تعمیر‘‘ سے منو بھائی، احمد ندیم قاسمی کی خواہش پر روزنامہ ’’امروز‘‘ میں آگئے اور یہاں انہوں نے دیگر صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ’’گریبان‘‘ کے عنوان سے کالم نویسی بھی جاری رکھی۔ بقول منو بھائی ’’گریبان‘‘ کے عنوان سے کالمی سلسلہ لکھنے کی وجہ یہ شعر بنا
راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
منو بھائی نے وہ زمانہ بھی دیکھا کہ جب حکومت سے صحافیوں کے معاوضے کے جھگڑے پر اُن کا جبری تبادلہ ’’امروز‘‘ ملتان کردیا گیا۔ جہاں سے بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو اُنہیں روزنامہ ’’مساوات‘‘ میں لے آئے۔ اس اخبار میں منو بھائی کا پہلا کالم 7 جولائی 1970ء کو چھپا تھا، ’’مساوات‘‘ سے منو بھائی ’’جنگ‘‘ لاہور میں آگئے اور ’’جنگ‘‘ کے علاوہ کچھ عرصہ دوسرے اخبارات میں بھی اپنا شوقِ کالم نویسی پورا کرتے رہے۔ منو بھائی کے کالموں کے موضوعات اکثر غربت، عدم مساوات، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری، خواتین کا استحصال اور عام آدمی کے مسائل ہوا کرتے تھے۔ منو بھائی اپنے دوستوں کے انتقال پر جو کالم لکھتے تھے تو اُن کا اسلوب کچھ اور ہی ہوا کرتا تھا اور اُن پُردرد اسلوب کے حامل کالموں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ منو بھائی اس ضمن میں کہا کرتے تھے کہ ’’اصل میں ان کالموں میں صرف یہ نہیں ہے کہ اُن کے انتقال پر افسوس کیا گیا ہو، بلکہ میں نے لوگوں کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ اُن کے انتقال سے معاشرے کو کیا نقصان ہوا ہے اور وہ کون سی خوبیاں تھیں جن سے ہم محروم ہوگئے ہیں۔‘‘
منو بھائی کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی اور اُن کی شخصیت کا ایک معتبر حوالہ ڈراما نگاری بھی ہے۔ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز کے لئے سونا چاندی، جھوک سیبال، دشت، عجائب گھر، آشیانہ، جھیل، دروازہ، جزیرہ، پلیٹ فام اور پے سے پہاڑ جیسے ڈراموں سمیت متعدد سولو، سیریز ار ڈراما سیریلز لکھیں اور پاکستان سمیت بیرون پاکستان ان کے تحریر کردہ ڈراموں کو بے حد شوق کے ساتھ دیکھا جاتا تھا۔ بالخصوص ڈراما سیریز ’’سونا چاندی‘‘ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کی مقبول ترین ڈراما سیریز گردانی گئی جس میں سونا کے کردار میں حامد رانا اور چاندی کے کردار میں شیبا حسن نے خوب رنگ جمایا اور سچ تو یہ ہے کہ یہ دونوں فنکار ’’سونا چاندی‘‘ ہی سے عوام میں جانے پہچانے گئے۔ کالم نویسی کی طرح منو بھائی نے اپنے ٹی وی ڈراموں میں متوسط درجے کے لوگوں کی زندگی اور مسائل کو خوبی کے ساتھ پیش کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے کی جانب منو بھائی کو لانے کا سہرا اس ادارے کے پہلے سربراہ اسلم اظہر کو جاتا ہے۔ جب 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے تناظر میں منو بھائی نے ڈراما ’’پُل شیر خان‘‘ تحریر کیا۔ ڈراما نگاری، کالم نگاری کے ساتھ ساتھ منو بھائی نے کچھ کتابیں بھی لکھیں جن میں پنجابی شاعری کا مجموعہ ’’اجے قیامت نئیں آئی‘‘ منتخب کالموں پر مشتمل کتاب ’’جنگل اداس ہے‘‘، فلسطین فلسطین‘‘، ’’محبت کی ایک سو ایک نظمیںِ‘‘ اور تراجم کی کتاب ’’انسانی منظرنامہ‘‘ شامل ہیں۔ سال 2007ء میں وہ تمغہ برائے حُسن کارکردگی سے نوازے گئے۔ منو بھائی گزشتہ گیارہ سالوں سے لاہور کے خیراتی ادارے ’’سندس فاؤنڈیشن‘‘ سے وابستہ تھے اور بلامعاوضہ اپنی خدمات پیش کررہے تھے۔ یہ ادارہ خون کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا بچوں کا مفت علاج کرتا ہے۔ منو بھائی کچھ عرصہ سے گردوں اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور لاہور کے مقامی اسپتال میں زیرعلاج تھے۔ جہاں جمعۃ المبارک 19 جنوری 2018ء کی صبح وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اُن کی نماز جنازہ اُسی دن اُن کی رہائش گاہ کے قریب ریواز گارڈن میں ادا کی گئی اور انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک کیا گیا
بزم سے اُٹھ جائیں گے جب ہم گریباں چاک لوگ
کس کے گھر جائیں گی ، شہر عشق کی رسوائیاں