روس اور مغربی دنیا جس کی سربراہی بلاشبہ امریکا کررہا ہے کے تعلقات زبردست تناؤ کا شکار ہیں۔ خصوصاً روس کی جوابی کارروائی نے تو امریکا اور اس کے حواریوں کو تلملاہٹ کا شکار کردیا ہے، ان کے لئے روس کا ردعمل حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہے۔ بدقسمتی سے امریکا کے علاوہ روس بھی اب افغانستان میں جاری جنگ کا اہم کردار بن چکا ہے۔ جہاں روس نے امریکا پر داعش کو مضبوط کرنے اور افغانستان میں متحرک کرنے کا الزام عائد کیا ہے وہاں امریکن یہ واویلا کررہے ہیں کہ روس طالبان کی پشت پناہی کررہا ہے۔ اگر دونوں الزامات کو صحیح مان لیا جائے تو زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس لڑائی میں روس کا پلہ بھاری ہے کیونکہ طالبان عملاً افغانستان کے 70 یا 80 فیصد حصہ پر قابض ہیں جبکہ امریکی پٹھو بھارت جس کو امریکا نے شاید داعش کے لئے ’’سیف ہاؤس‘‘ بنا دیا ہے کیونکہ افغانستان میں سرگرم داعش کے مرکزی کمانڈ ’’چنائی‘‘ (مدراس) میں بھارتی انٹیلی جنس کے خفیہ مرکز سے آپریٹ کررہی ہے۔ امریکا کی طرف سے بھارت کی مستقل پشت پناہی خصوصاً ٹرمپ حکومت کی بلاضرورت اور حد سے تجاوز کرتی پشت پناہی نے بھارت کا دماغ خاصا خراب کردیا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ امریکا نے بھارتیوں کو کس طرح ’’ماموں‘‘ بنایا اور وقت آنے پر کس طرح کمر پر لات مار کر الگ ہوئے ماضی میں پاکستان اس کی بہترین مثال ہے۔
یہاں دو اہم فیکٹر خصوصی توجہ کے طالب ہیں ایک تو ماضی میں روس کا افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں شیرازہ بکھرنا اور دوسرا یہ تاریخی حقیقت کہ افغانستان ماضی میں بھی عالمی طاقتوں کا قبرستان بنا ہے اور مستقبل بھی اس سے الگ دکھائی نہیں دے رہا۔ اس خطے میں ممکنہ تباہی کے لئے بھارت نے اسلحے کے ڈھیر جمع کرنے شروع کر دیئے ہیں جبکہ امریکا اور اس کے حواریوں نے بھارت پر اپنے کارخانوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ سویڈن کے دارالحکومت میں قائم ’’اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ (ایس آئی پی آر آئی ) کی جاری کردہ تازہ ترین چار سالہ رپورٹ کے مطابق 2000ء کی دہائی کے اوائل میں اسلحے کی فروخت میں اضافے کا جو رجحان شروع ہوا تھا، 2013ء تا 2017ء کے دوران بھی برقرار رہا اور ان چار برسوں کے دوران اسلحے کی تجارت کا حجم 2008ء سے 2012ء کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ رہا۔ 2008ء سے 2017ء کے دوران اسلحے کا زیادہ تر بہاؤ ایشیا اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی طرف دیکھا گیا۔ جبکہ شمالی اور جنوبی امریکا، یورپ اور افریقہ کی طرف اس بہاؤ میں کمی نوٹ کی گئی۔ 2013ء سے 2017ء کے دوران دنیا کے پانچ بڑے اسلحہ برآمد کنندگان امریکا، روس، فرانس، جرمنی اور چین رہے۔ چار برس کے اس عرصے کے دوران فروخت ہونے والے کل اسلحے کا 74 فیصد انہی ملکوں نے بیچا۔ واضح رہے کہ ان میں سے چار ملک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور دنیا بھر کو عام طور پر تخفیف اسلحہ کے فوائد پر بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے پانچ ممالک بالترتیب بھارت، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور عوامی جمہوریہ چین تھے۔
دستیاب تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 2016ء میں مجموعی عالمی فوجی اخراجات 1686ارب ڈالر رہے، جو پوری دنیا کی جی ڈی پی کے 2.2 فیصد کے مساوی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ عالمی فوجی اخراجات کو دنیا کی کل آبادی پر تقسیم کردیا جائے تو ہر شخص کے حصے میں 227 ڈالر آئیں گے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا 611 ارب ڈالر سالانہ فوجی اخراجات کے ساتھ حسب معمول سرفہرست رہا۔ اس فہرست میں شامل اگلے 8 ملکوں نے مجموعی طور پر جو فوجی اخراجات کیے، امریکی اخراجات کی رقم اس سے بھی زیادہ تھی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2018ء میں امریکی فوجی اخراجات 2016ء کے مقابلے میں 80 ارب ڈالر زائد ہوں گے، صرف یہ ممکنہ اضافہ ہی (چین کو چھوڑ کر) دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے سالانہ دفاعی بجٹ کے حجم سے زیادہ ہے۔ تادم تحریر 2017ء کے عالمی فوجی اخراجات کے مصدقہ اعدادوشمار سامنے نہیں آئے تھے۔ اسلحہ کے خریداروں میں بلاشبہ پہلا نمبر بھارت کا ہے جس کے دماغ میں یہ خناس داخل ہوچکا ہے کہ وہ شاید اس خطے میں چین کے مقابلے کی قوت بن جائے گا، یوں تو بھارتی تاریخ بتاتی ہے کہ بھارت ہمیشہ سے ہی جنگی جنون میں مبتلا رہا ہے اور بے پناہ غربت و افلاس کے باوجود ہتھیاروں کی خریداری پر ہر سال اربوں ڈالر خرچ کر دیتا ہے۔ 2013ء سے 2017ء کے دوران دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار بھارت تھا، جس نے عالمی سطح پر فروخت کیے جانے والے اسلحے کا 12 فیصد خریدا ہے۔ بھارت کا مہنگے ہتھیار خریدنے کا شوق اب ایک لاعلاج بیماری بن چکا ہے۔ 2008ء سے 2012ء کے مقابلے میں 2013ء سے 2017ء کے دوران اسلحے کی بھارتی خریداری میں 24 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ بھارت نے 62 فیصد اسلحہ روس سے خریدا۔ تاہم 2008ء سے 2012ء کے مقابلے میں 2013ء سے 2017ء کے دوران امریکا سے اسلحے کی بھارتی خریداری میں 557 فیصد بڑھ گئی اور یوں امریکا، بھارت کو اسلحے فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک قرار پایا۔
دوسری جانب بھارت کے ساتھ مسلسل کشیدگی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے باوجود پاکستان نے 2013ء سے 2017ء کے دوران جو اسلحہ خریدا وہ 2008ء سے 2012ء کے مقابلے میں 36 فیصد کم تھا۔ پاکستان نے گزشتہ چار برس کے دوران جو ہتھیار خریدے، وہ عالمی تجار ت کے کل حجم کا محض 2.8 فیصد تھے۔ امریکا سے 2013ء سے 2017ء کے دوران اس اسلحہ خریداری 2008ء سے 2012ء کے مقابلے میں 76 فیصد کم رہی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت کے کشیدہ تعلقات ہتھیاروں سے متعلق اس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کی اصل وجہ ہیں، بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے مطلوبہ ہتھیار خود بنانے کی بہت کم صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسلحے کی طلب خود اپنے وسائل سے پوری کرنے کی صلاحیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے اور وہ ہتھیاروں کی فروخت کے ذریعے پاکستان، بنگلا دیش اور میانمار کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی مزید مستحکم بنا رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ اعدادوشمار ہیں کہ 2008ء سے 2012ء کے مقابلے میں 2013ء سے 2017ء کے دوران چین نے 19 فیصد کم اسلحہ خریدا۔ بھارت اسلحہ کے جو ڈھیر جمع کررہا ہے یہ ایک عالمی سازش کے تحت بھارت کو امریکا ’’اسلحہ ڈمپ‘‘ بنا رہا ہے اگر مستقبل میں ٹرمپ منصوبے کے تحت افغانستان کو ہی عالمی سازشیوں نے میدان جنگ بنانا ہے۔ تو جان لیجئے کہ جس طرح ماضی میں روس کے ایٹمی اسلحہ کے انبار اس کی شکست و ریخت کا باعث بنے تھے یہ تاریخ بھارت میں بھی دوہرائی جا سکتی ہے؟