مصطفی حبیب صدیقی
تنہا زندگی بسر کرنے والے ایک عمر رسیدہ جوڑے کی کہانی
کاشف نے جب مجھے ان دونوں کے بارے میں بتایا تو میں کافی پریشان ہوگیا، دونوں کی عمریں 70 اور 75 کے لگ بھگ ہوں گی مگر اس عمر میں تنہائی کا کرب تھا، کراچی جیسے شہر میں اولڈ ہاؤس میں رہنے پر مجبور تھے۔ چار جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے بے اولاد تھے۔
یہ کہانی کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں رہائش پذیر جاوید اور حمیدہ جاوید کی ہے۔ بیرون ملک جانے والے کبھی کبھار اپنوں کی ذمہ داریوں سے ایسے لاپروا ہوجاتے ہیں کہ افسوس ہوتا ہے۔
”السلام علیکم انکل“، میرے زور سے سلام کرنے پر جاوید صاحب چونکے اور پھر رک کر ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا۔ ”آپ مجھے نہیں پہچانتے مگر میں کاشف کا دوست ہوں اور آپ کو جانتا ہوں، کیا کچھ دیر بیٹھ کر بات ہوسکتی ہے۔“، ہاں ہاں بیٹھو بیٹا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولے، ”چلو یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔۔“ ہم گلشن کے ایک فٹ پاتھ کے ساتھ گھاس پر ہی بیٹھ گئے۔ ”بچے کہاں ہیں؟“ میں نے گھمائے پھرائے بغیر براہ راست سوال کیا۔ ”وہ، وہ، سب تو کینیڈا امریکا میں ہیں بے چارے کافی عرصہ ہوگیا، بیگم بچوں کے ساتھ وہاں محنت مزدوری کررہے ہیں“ جاوید صاحب، آنکھیں چراتے ہوئے اپنے بچوں کے کھلے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے تھے۔
”اچھا، چلیں آپ کے گھر چلتے ہیں، میں سامنے سے سموسے لے لیتا ہوں، ساتھ بیٹھ کر کھائیں گے اور چائے پئیں گے۔ چائے تو پلائیں گے نا!“ میں نے ازراہِ مذاق کہا۔ میری پیشکش پر جاوید صاحب کے چہرے پر رونق پھیل گئی۔
”چائے، ہاں ہاں، ضرور، تم میرے ساتھ بیٹھو گے، وقت ہے تمہارے پاس، بیٹا تم لوگ تو مصروف بچے ہو نا، دیکھ لو۔“
”جی جی، بہت وقت ہے“ میں نے کہا۔
میں اور جاوید صاحب سموسے لینے کے بعد اُن کے گھر میں بیٹھے تھے کہ ان کی اہلیہ حمیدہ جاوید ہاتھوں میں چائے کی ٹرے اٹھائے آگئیں۔ خوشی ان کے چہرے سے بھی نمایاں طور پر جھلک رہی تھی۔ ”جاوید صاحب! بچے کب گئے اور آپ کب تک تنہا رہیں گے، آپ ان کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے؟“ میرے سوال پر جاوید صاحب نے بولنا شروع کیا، درمیان میں حمید جاوید بھی کچھ نہ کچھ کہتی رہیں اور میں گفتگو سن کر دل ہی دل میں خون کے آنسو روتا رہا۔
”بیٹا، کیا بتاؤں، بچوں کو تو ملک چھوڑے برسوں بیت گئے، آخری بیٹا آ ٹھ سال پہلے گیا تھا۔ وہ سب پورے خاندان کے ساتھ وہاں سیٹل ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستان میں رہنا کوئی انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ میں تمہیں بتاؤں، جب میرے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تھا تو میں نے حمیدہ سے کہا تھا کہ میرا ایک بازو آگیا، دوسرے بیٹے پر دوسرے بازو کا دعویٰ کیا جبکہ چاروں بیٹوں کو اپنا جسم قرار دیا مگر آہ! کیا بتاؤں بیٹا، اب تو جسم ہی نہیں رہا۔“ حمیدہ جاوید درمیان میں گویا ہوئیں، ”بچے ویسے بہت لائق ہیں، روز فون کرتے ہیں، انٹرنیٹ پر ہم سے باتیں کرتے ہیں، اس 400 گز کے بنگلے میں تنہا رہتے ہیں تو گھٹن ہوتی ہے مگر اس خیال سے یہ بنگلہ نہیں چھوڑتے کہ ایک دن بچے واپس آئیں گے تو یہ آنگن پھر آباد ہوجائے گا۔“
”تو آپ کے بارے میں سنا تھا کہ یہاں کوئی اولڈ ہوم ہے آپ وہاں بھی جاتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔ ”ہاں، قریب ہی ایک بنگلہ ہے، وہاں چند معمر افراد جمع ہوگئے ہیں۔ تقریباً سب کی یہی کہانی ہے۔ وہاں چلا جاتا ہوں اور گپیں ہانکتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں۔ دل تو چاہتا ہے کہ وہیں رہوں مگر حمیدہ کی وجہ سے واپس آنا پڑتا ہے۔“ جاوید صاحب بولے۔
”تو کیا کبھی آپ نے بچوں سے کہا نہیں کہ ہم تنہا ہوگئے ہیں، واپس آجاؤ؟“
”ہاں کئی مرتبہ کہا تو ہے مگر وہ بھی مجبور ہیں، یہاں کہاں ملازمت ہے۔ بیگمات اور بچے بھی واپس نہیں آنا چاہتے۔ اور ویسے بھی بیٹا! اب ہمارا کیا ہے، ایک دن ایسے ہی چلے جائیں گے، ان کی زندگی ہے گزار لیں۔“
”لیکن ان پر ذمہ داری تو عائد ہوتی ہے؟“
حمیدہ جاوید بولیں! ”ہاں ہوتی ہے مگر اس میں قصور جاوید صاحب کا زیادہ ہے۔ ان کی وجہ سے آج ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں؟“۔ ابھی میں اس جملے پر محوحیرت ہی تھا کہ جاوید صاحب بولے ”میرا کیا قصور ہے، میں نے کیا کردیا، ہر وقت مجھ سے لڑتی رہتی ہو“
”ہاں ہاں! آپ کا ہی قصور ہے، بچوں کو بچپن سے ایک ہی تربیت دی کہ بیٹا دولت بڑی چیز ہے۔ پیسے میں بڑی طاقت ہے، بس جس کے پاس پیسہ ہے وہی کامیاب ہے، انہوں نے بس پیسے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا۔“
”بیٹا میں تمہیں بتاؤں، میں ان سے کہتی تھی کہ بچوں کو کچھ مشرقی روایات بھی سکھائیں مگر یہ انہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کے لئے ایک سے ایک انگریزی اسکول میں اور پھر کالج میں ڈالتے رہے۔ بچے صرف دولت کمانے کے لئے ہی پڑھتے رہے۔ انہیں کسی نے یہ تربیت دی ہی نہیں کہ والدین کا کیا حق ہے۔ جب ہم نے انہیں یہ شعور ہی نہیں دیا تو ان سے شکوہ کیا۔ یہ خود بھی ساری عمر بس پیسہ کمانے میں لگے رہے۔ بنا تو لیا اتنا بڑا بنگلہ۔ دیکھو سامنے تین تین گاڑیاں کھڑی ہیں، سب خراب ہیں، نئے ماڈل کی گاڑی چاہئے، گھر میں ہر سال نیا فرنیچر چاہئے، ارے بھئی بچوں کی تربیت بھی کی ہوتی (حمیدہ جاوید کا پارہ چڑھ چکا تھا جبکہ جاوید صاحب کٹہرے میں کھڑے کسی مجرم کی طرح سر جھکائے یہ سب سن رہے تھے)
”لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ جاوید صاحب نے یہ سب کس کے لئے کیا، اپنے بچوں کے لئے ہی نا، آج انہیں یہ اعلیٰ تعلیم نہ دلاتے تو کیا وہ کینیڈا اور امریکا میں ہوتے؟ (جاوید صاحب کو شرمندگی سے بچانے کے لئے میں نے کچھ حمایتی جملے ادا کئے)۔ ”نہیں بیٹا! حمیدہ صحیح کہتی ہے، اصل میں ایک بات ہے جو تم جیسے نوجوانوں کو ہم سے سبق کے طور پرسیکھنی چاہئے کہ بچوں کو صرف مادیت کی تعلیم نہ دیں، انہیں کچھ اور بھی سکھائیں۔ آج میرے بچے خودغرض ہیں، انہیں بس اپنی زندگی کی فکر ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ میں نے شروع سے انہیں تربیت ہی ایسی دی تھی۔“
میں نے جاوید صاحب اور حمیدہ جاوید کی گفتگو سن کر سموسے کھائے اور چائے پینے کے بعد کچھ دیر گپیں ہانکیں، انہیں حوصلہ دیا اور گھر واپس آگیا۔ مگر اسی سوچ میں مبتلا رہا کہ جاوید صاحب کے معاملے میں غلطی کس کی ہے، ان کی یا ان کے بیٹوں کی؟