پاکستان پر اس وقت دو قسم کی جنگیں مسلط کی ہوئی ہیں، ایک ہائبرڈ جنگ (ہائبرڈ وار ) جسے مختلف نسلی یا تہذیبی جنگ کہا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ اس میں چوتھی نسل کی جنگ کا تڑکا لگا دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جنگیں کیا ہوتی ہیں، جنگوں کے انداز اور طریقوں میں تبدیلی آنے پر جدید تاریخ میں امریکا کے کئی تجزیہ کاروں خصوصاً ولیم ایس لِنڈ نے نسلوں کی جنگ کو زیربحث لاتے ہوئے پہلی تین جنگوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پہلی نسل کی جنگ میں پرانا طریقہ کار اور قدیم یونانی جنگ کے بعد یہ جنگیں افرادی قوت سے جس میں فوجیوں کی قطاریں، درمیانی، دائیں اور بائیں اور محفوظ فوج کے ذریعے لڑی جاتی تھی، پھر تیر اندازی، نیزہ بازی اور شمشیر اُن کے ہتھیار ہوتے تھے اور سپاہیوں کی تعداد اور اُن کے لڑنے کے طریقوں پر اس بات کا انحصار ہوتا تھا کہ وہ جنگ جیت جائیں یہ ہار جائیں ایسی جنگوں میں فوج کی کوئی وردی نہیں ہوتی تھی، اگرچہ یورپ اپنی فلموں میں چمک دمک اور کشش بڑھانے کے لئے اُن کو وردی والے سپاہی دکھا دیتے ہیں۔ دوسری نسلی جنگ میں رائفل اور بارود کا استعمال ہوا جو جدید طور کے شروعات میں شروع ہوئیں، اور اس سے پہلے منجنیق کا استعمال جس سے قلعہ کی دیوار توڑنے کے لئے بھاری پتھر پھینکے جاتے تھے، یہ ایک قسم کا غیرآتشی میزائل لانچر تھا بعد میں اسی طریقہ سے آگ بھی برسائی جانے لگی مگر بعد میں بارود کا استعمال سوئیڈن اور جرمنی کے سائنسدانوں کی مدد سے شروع ہوا اور اُن میں سے ایک ایسی جنگ روس کے قریب امام شامل اور روسی فوجوں کے درمیان ہوئی اور پہلی مرتبہ بارود کا استعمال ہوا، یہ شاید 1571ء کا سال تھا اور اس کے ساتھ توپوں، مشین گنوں اور رائفل کا استعمال شروع ہوا۔ تیسری نسل کی جنگ جدید دور کے کچھ برس کے بعد سے شروع ہوئی جس میں آج کے دور کے حساب سے قدرے پرانے ہتھیار اور جنگی حکمت عملی استعمال رہی، جس میں ہتھیاروں کو دور سے تیز رفتاری سے ہدف پر نشانہ لگا کر پھینکنا اور ایسے ہتھیار استعمال ہونا شروع ہوئے جو آنکھوں سے نہ دیکھے جاتے ہوں یا راڈار پر نظر نہ آسکتے ہوں اور آگے لڑنے والی فوجوں کو پیچھے سے اور اُن کی مرکزی زمین میں تباہی پھیلا کر تباہ کردیا جانے کا طریقہ کار وضع ہوا۔ ایسی جنگ میں آمنے سامنے کی جنگ کے ساتھ ایک دوسرے کو میدانِ جنگ کی پیچھے جنگ کرکے شکست یا جیت کا تصور ابھرنے لگا، اگر پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کو دیکھا جائے تو وہ تینوں طریقوں سے لڑی گئیں۔ چوتھی نسل کی جنگ میں دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق مرکزیت کا تصور نہیں ہوتا، وہ ہر طریقہ سے لڑی جاتی ہیں، پہلی جنگوں میں غیرمسلح افراد کو بچانے کا طریقہ کار وضع کیا گیا، اس پر بہت سے معاہدات ہوئے جو جنیوا کنونشنز کہلاتے ہیں، مگر اس طریقہ جنگ میں میدانِ جنگ کو دھندلا کر سیاست، آمنے سامنے کی لڑائی، سویلین آبادی کو نقصان پہنچانا اور اس طرح کہ کسی ملک کی افواج کی اپنے ملک کے دفاع کو کمزور کردیا جانا، آمنے سامنے کی جنگیں آج بھی زمین کے قبضے کے لئے ہوتی رہتی ہیں مگر ٹینکوں کی جنگ کہلاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمنی اور روسی افواج کے درمیان 23 سے 27 جون 1941ء میں ٹینکوں کی جنگ اور 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چونڈہ کی جنگ۔ مگر اب آمنے سامنے کی جنگ سے نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ میں ہر طرح کے ہتھیار استعمال ہوئے یہاں تک کہ امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیئے۔ پھر اس جنگ کے ختم ہوجانے کے بعد کیونکہ کئی ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار آگئے تھے جن میں امریکا، روس، فرانس، برطانیہ اور چین۔ ان ایٹمی ممالک نے اپنی دنیا بنا ڈالی مگر انسانی جبلت نہیں بدلی، اس کی وجہ سے دنیا میں 1945ء کے بعد کوئی بڑی جنگ تو نہیں ہوئی مگر دنیا کو زیردست کرنے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے، اسٹرٹیجک جگہوں کو اپنی دسترس میں لینے کے لئے جنگیں ضرور شروع ہوئیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ایٹمی میزائل نظام معرضِ وجود میں آیا اور اس کے بعد دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت روس اور امریکا دونوں نے حاصل کرلی کہ اگر زمین پر کچھ باقی نہ بچے تو دشمن کی زمین اور اس میں موجود زندگی کو وہ ملک جو تباہ ہوچکا ہو اس کے فوجی حملہ آور ملک کی سرزمین اور حیات کو آبدوزوں کے ذریعے ایٹمی حملہ کرکے تباہ کرڈالے۔ اس وجہ سے بڑی جنگ رکی ہوئی ہے تاہم ایک ملک دوسرے ملک کو کمزور کرنے کے لئے اس کے ملک میں مداخلت کرنے اور تضادات کو چاہے وہ نسلی ہوں، مسلکی یا لسانی ہوں کو ابھارے، اُن کو آپس میں لڑائے، اپنے جاسوسوں کے ذریعے خودکش حملے کرائے، سرحدوں پر مسلسل فوج کو مصروف رکھا جائے، ایک محاذ کی بجائے کئی محاذ کھول دیئے جائیں، معاشی طور پر کمزور کیا جائے، پانی اور ضروریاتِ زندگی کی کمیابی کردی جائے، ایسی جنگ کی کوئی مدت نہیں بلکہ یہ جنگ مسلسل چلتی رہتی ہے۔ اس کا رُخ انداز بدلتے رہتے ہیں، جیسے کہ پاکستان میں کوشش کی گئی کہ پاکستان کی مسلح افواج کو کمزور کیا جائے، ماضی میں وہ ہماری فضائی، بحری اور بری اڈوں پر حملے ہوتے رہے اور پاکستان یہ دکھ جھیلتا رہا، اس کے ملک میں ایک کبھی ایک مسلک کے لوگوں کو مارا جاتا رہا تو کبھی دوسرے ملک کے لوگوں کو تاہم اس ملک کے لوگوں نے بہادری کے ساتھ اس کو برداشت کیا، لسانیت کو شکست دی گئی، سرحدوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔ پہلے پاکستان کا ایک محاذ تھا اب دوسرا محاذ افغانستان کی طرف سے قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان کی فوج کی قوت تقسیم ہوجائے، ساتھ ساتھ سرحدوں پر جھڑپ، نئے سے نئے اسلحہ کی نمائش، یہ سب مختلف نسلی یا مختلف تہذیبی جنگ کے زمرہ میں آتا ہے، اب بھارت پاکستان کی زمین پر حملہ نہیں کرسکتا کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے اور حملہ اس لئے بھی نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے پاس جدید ترین میزائل اور فریگیٹ ہیں۔ اس پر ہی اکتفا نہیں پاکستان کے پاس بھی دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت موجود ہے، جس کا اظہار پہلے پاکستان نے جنوری 2017ء میں کیا اور اس سال دو مرتبہ ایٹمی اسلحہ کی صلاحیت کے میزائل بابر کا تجربہ کرکے دشمن کو مطلع کیا کہ وہ اپنی حد میں رہے، اس پر بھارت نے پاکستان کی سرحد کی قریب فضائی مشق کرکے کوئی پانچ ہزار سے زائد پروازیں اپریل 2018ء کے وسط میں کی ہیں، اس کے باوجود پاکستان نے اپنے اندر کی دہشت گردی اور مختلف النسل کی جنگ پر قابو پا کر اور اپنے اسلحہ کو جدید سے جدید بنا کر کسی خوف کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔ یہ اعزاز پاکستان کو ہی ملا کہ اس نے ہائبرڈ جنگ پر قابو پایا جبکہ ساری دُنیا کی افواج اس پر قابو پانے میں ناکام ہوئی ہیں۔ ہم نے اس میں نظریاتی طور پر اس جنگ کو جیتا بلکہ اس جیت کو برقرار رکھا تاہم چوتھی نسل کی جنگ سب سے جدید طرز جنگ مانی جاتی رہی ہے۔ اس میں جنگ کا تصور ہی یکسر بدل گیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ پہلے جنگیں ریاست اور ریاستوں کے درمیان ہوتی تھیں اور اب ریاست اور غیرریاستی اسٹیٹ ایکٹرز حصہ لیتے ہیں۔ اس میں فوجیوں اور عام شہری میں تفریق کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ دونوں ہی ہدف ہوتے رہیں۔ گوریلا حکمت عملی بھی استعمال ہوتی ہے اور اس میں افراتفری پھیلانے کا عنصر نمایاں رہتا ہے اور اس میں جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ، افواہیں، میڈیا کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے، نفسیاتی جنگ بھی اس کا حصہ کہلاتی ہے تاہم پانچویں نسل کی جنگ میں جدید ڈرونز، روبوٹس، سائبر جنگ، اس میں انسانوں کو تباہ کئے بغیر فتح کا حصول کا تصور موجود ہے کہ ایک ہدف کو نشانہ بنایا جائے، وہ نظر میں نہ آئے نہ انسان دیکھ سکے اور نہ جدید آلات۔ وہ تمام آلات جس سے الیکٹرو میگنٹک لہریں نکلتی ہیں اُن کو منجمد کردیا جائے۔ اس میں گلوبل پوزیشنگ نظام (جی پی ایس) رہنمائی کرنے والے آلات موجود ہیں۔ جن کی مدد سے ہیکل اساسی اور افواج کی اڈوں کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکا میں ڈرون کی مختلف اقسام ایجاد کرلی گئی ہیں جس کے بعد کہا جارہا ہے کہ یہ امریکا ہی ہوگا جو پانچویں نسل کی جنگ کو شروع کرے گا اور کب کرے گا یہ وہی جانتا ہے مگر حال ہی میں روس نے آواز سے بیس گنا رفتار میزائل بنا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور کچھ ایسا ہی اس وقت ہوا جب 16 اگست 2016ء کو کوانٹم سیارہ چین نے خلاء میں بھیجا جس کی وجہ وہ امریکا کے سائبر حملہ کو روک سکتا ہے۔ یوں پانچویں نسل کی جنگ کی شکل پوری طرح واضح نہیں ہوئی، اگرچہ اس کی شکل کو واضح کرنے کے لئے ایک سے ایک تجربے اور ایجادات کا اظہار کیا جارہا ہے۔