Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

بحر ہند میں بحری اڈوں کے حصول کی دوڑ

نصرت مرزا

اس سے پہلے کے کالموں میں تیسری عالمی جنگ کی تیاریوں، پھر 2018ء میں امریکا کا نیا ایٹمی ڈاکٹرائن، امریکا، روس، چین اور بھارت میں میزائلوں کی دوڑ، دفاعی نظام کی تیاریاں ۔ جبکہ تاحال کوئی بھی ملک میزائل کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کومحفوظ ہونے کا نظام نہیں بنا سکا ہے اور بھارت کا عالمی قوت بننے کا خواب جیسے موضوعات کو پیش کرچکے ہیں۔ اب یہ بتانا ضروری ہوگیا ہے کہ بھارت اور چین بحرہند میں اڈوں کے حصول کی دوڑ میں کہاں تک پہنچ گئے ہیں، گوادر کی بندرگاہ سے پاکستان چین اقتصادی راہداری چین کے ’’ایک سڑک ایک پٹی‘‘ جس کو وہ ’’ابور‘‘ یعنی ون بیلٹ ون روڈ کا نام دیتاہے اُن کے چھ راستوں میں سے ایک ہے، باقی پانچ راستے مختلف ممالک سے گزرتے ہیں اس لئے چین کو اپنی بحری جہازوں کو محفوظ بنانے کے لئے اڈوں کی ضرورت ہے، بھارت بحرہند کو اپنے حلقہ اثر میں سمجھتا ہے تاہم بحر ہند میں دُنیا کے بحری بیڑے موجود ہیں، چین کا خیال تھا جیسا کہ اس کے ایک پروفیسر نے 2003ء کے اسلام آباد میں ہونے والے ایک مذاکرہ میں کہا تھا کہ وہ اس وقت کا انتظار کررہے ہیں کہ کب چین اور امریکا اس سلسلے میں تصادم ہوگا، مگر چین کے اندازوں کے برعکس بھارت اور امریکا چین کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ بھارت کو امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور دیگر ممالک کے بحری بیڑوں کی موجودگی پر اعتراض نہیں البتہ وہ چین کو اپنی راہ کا بڑا پتھر سمجھتا ہے۔ وہ شاید اس کو برداشت کر لیتا، اگر پاکستان چین اقتصادی راہداری کی تعمیر کا کام نہ ہورہا ہوتا، اب تک اس کی تعمیر میں 22 بلین ڈالرز خرچ ہوچکے ہیں، امریکا بھی بھارت کے ساتھ اس لئے جڑ گیا کہ وہ چین کی عالمی پیش قدمی کو روکنا چاہتا ہے اور پاکستان کو دائرۂ اثر سے نکلنے پر پاکستان کو سزا دینا چاہتا ہے۔ جبکہ روس اور چین نے ایسے میزائل بنا لئے ہیں جس کو امریکا دفاعی نظام روکنے میں ناکام ہے تو امریکا کو اپنے ایٹمی اثاثہ جات کو جدید بنانے کا خیال آیا۔ امریکی اسٹرٹیجک کمانڈر جنرل جان ہیٹن نے 22 مارچ 2018ء کو سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کو بتایا کہ اُن کو ایٹم بم کو گرمانے کے لئے 80 پلوٹونیم کور کی ضرورت ہوگی، اگرچہ انہوں نے اُن کی موثر عمر کا نہیں بتایا البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ 1978ء اور 1989ء کے درمیان بنی تھی اور ساتھ ساتھ میں جملہ بھی آن ریکارڈ کہہ دیا کہ نئی پلوٹونیم پلیٹس کے بغیر امریکی ایٹم بم بے مقصد ثابت ہوں گے۔ اس سے پہلے روس نے ایٹمی آبدوز سے ایٹمی ڈرون اور آواز سے 20 گنا رفتار سے زیادہ چلنے والے میزائلوں کا تجربہ کیا تو امریکا کی میزائل بالادستی ختم کرتے ہوئے روسی صدر نے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ برابری کی سطح پر بات کرے اور اپنے آپ کو ہتھیاروں کے معاملے میں بالادست نہ سمجھے۔ عالمی معاملات میں بڑی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، وہ اگرچہ الگ سے کالم کا تقاضا کرتی ہے جو کسی اور وقت پورا کردیا جائے گا، اس وقت یہ ضروری ہے کہ قارئین کی خدمت میں اس دوڑ کو زیربحث لایا جائے جو بھارت اور چین کے درمیان بحری اڈوں کے حصول کے لئے مقابلہ پا رہا ہے۔ جیسا کہ بھارت عالمی طاقت بننا چاہتا ہے اس کے لئے وہ اسلحہ بھی بڑی تعداد میں خرید کر پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہا ہے اور جن ممالک سے اسلحہ خرید رہا ہے ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھا کر بڑے اور بااثر ممالک میں اپنی جگہ بنانے کا خواہشمند ہے۔ بھارت نے ایران کی چابہار کی بندرگاہ، اومان کی دقم بندرگاہ کے لئے معاہدہ کرلیا ہے اور سیسلز سے 20 سالہ فضائی اڈہ بنانے کے لئے حاصل کرلیا ہے، سنگاپور سے چھانگی فضائی اڈہ کی رسائی کا معاہدہ نومبر 2017ء کیا۔ بھارت نے اپنے جزائر انڈومان (کالا پانی) اور نکوبار کو جہاں بھارت کے ایٹم بم محفوظ کئے گئے اور بھارت کی زمین سے 1200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے کو بھارت بحرہند اور بحرالکاہل کی سطح پر لے آیا ہے اور وہاں امریکی بحری بیڑے کو رسائی دیدی ہے کیونکہ امریکا اور بھارت کے درمیان بھارتی و امریکی بندرگاہوں تک رسائی کا معاہدہ موجود ہے، بھارت یہ اس لئے کرے گا کہ بھارت کے یہ دونوں جزائر شاہین III میزائل کی مار کی زد میں آجاتے ہیں۔ اس طرح وہ اُن کو محفوظ بنانا چاہتا ہے کہ امریکا کی ان جزائر میں موجودگی سے پاکستان اُن پر حملہ سے باز رہے گا۔
بھارت امریکا کے ساتھ مل کر بحرہند کو ملٹری اور ایٹمی ہتھیاروں کی بھرمار سے بحر ہند کے اطراف واقع 33 ممالک خطرات سے دوچار کررہا ہے اس کے علاوہ بھارت کو امریکا افغانستان میں رسائی دے کر خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنا چاہتا ہے اور سی پیک میں رکاوٹ پیدا کرنا بھی مقصود ہے، اس کے مقابلے میں چین نے تنزانیہ سے لے کر سری لنکا تک اپنی ملٹری کی موجودگی اور بحرہند میں بھارت کی بالادستی روکنے کی کوشش ایک ڈاکٹرائن (اسٹرنگ آف پرلس) موتیوں کی ڈوری کا نام دیا ہے۔ اس حکمت عملی کو شروعات اس نے ڈی جی بیوٹی جو افریقہ کا سینگ کہلاتا ہے اپنا پہلا اڈہ 2016ء میں بنا لیا، اس کے بعد گوادر کی رکھوالی خود پاکستان کے پاس ہے جو چین کا دوست ہے، 2017ء میں اس نے سری لنکا کی بندرگاہ، ہمن ٹوٹا کو 99 سالہ لیز پر لے لیا جبکہ بھارت اسی شہر میں فضائی اڈہ بنانے کی بات کررہا ہے۔ دسمبر 2017ء میں چین نے سری لنکا کی بندرگاہ کا قبضہ لے لیا۔ چین نے مالدیپ، برما، نیپال میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھا لیا ہے۔ اس کے علاوہ چابہار کی بندرگاہ میں بھی وہ کچھ کام کررہا ہے اور بھارت کے اثر کو زائل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ بھارت کو چین پاکستان اقتصادی راہداری میں رکاوٹ ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی، اس لئے کہ 128 ممالک نے سی پیک کی حمایت میں 2016ء میں کردی تھی مگر اس کو پاکستان کو دبانے کا شوق ہے اس کے برعکس پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہاں تک کہ امریکا نے جماعت الدعوۃ اور جیش محمدؐ پر جو اعتراض کئے ہیں اُن پر بھی ان جماعتوں کے رہنماؤں کو کشمیر میں مداخلت کے سلسلے کو روکنے کی کوشش شروع کردی ہے، کیونکہ بھارت میں خود اتنا مواد موجود ہے جو اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیگا۔ یہ وقت کی بات ہے کہ اس نے جمہوریت اور سیکولر ازم کو چھوڑ کر ہندتوا کو اپنا لیا ہے جس نے بھارت کی چولیں ہلا دی ہیں، اس میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں اور ڈراویڈین جو بھارت کے اصل باشندے ہیں اور جو جنوبی بھارت میں آباد ہیں انہوں نے ایک نئی تحریک ’’برہمنوں‘‘ کی ملک سے نکل جانے کی شروع کردی ہے، بوڈو، گورکھا، آزادی کی تحریکوں کے علاوہ نیکسلائٹ تحریک جو بھارت کی 29 ریاستوں میں سے 12 ریاستوں کو متاثر کرتی ہیں،زور پکڑ رہی ہیں، کشمیر کی تحریک آزادی نے بھارت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، بہرحال آج کی دُنیا ایک خطرناک دور سے گزر رہی ہے مگر ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ کوئی جنگ جنوبی ایشیا سے دور رہے اور جہاں تک ممکن ہو پاکستان اپنی ترقی اور امن کے لئے کام کرتا رہے۔

مطلقہ خبریں