Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ایٹمی میزائل ڈھال

نصرت مرزا

چین، روس اور امریکا کے درمیان جوہری خوف کو برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ قابل بھروسہ میزائل ڈھال بنانے کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے جو تینوں ممالک کے لئے ایک چیلنج ہے کیونکہ کوئی بھی میزائل ڈھال بنانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ پھر امریکا کے اعلان شدہ ہتھیاروں کے بہتر یا امریکا جیسے ہتھیار اور میزائل کا اس کے مدمقابل قوتوں نے تجربات کرنا شروع کردیئے ہیں، اس لئے اچانک ایٹمی میزائل ڈھال بنانے کی کوششوں میں تیزی پیدا ہوگئی ہے اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ کوئی قابل بھروسہ خوف موجود نہیں رہا ہے جو کسی ملک کو اس پر حملہ کرنے سے روک سکے۔ ماسکو اور بیجنگ نے حال ہی میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے، روس نے 12 فروری 2018ء کو میزائل اے-135 میزائل کا جبکہ چین نے 5 فروری 2018ء کو مڈٹرم میزائل کا مظاہرہ کیا جس کو ڈی ایف-21 ڈونگ نگ -3 (ڈی این-3/هوگ ) میڈیم رینج میزائل کہا جارہا ہے جن کی وجہ سے وہ تین مڈٹرم دشمن کے طیاروں کو حملہ سے پہلے روکنے والے ہوائی جہاز یا میزائل کے ذریعے فضا میں ہی دشمن کے میزائل کو تباہ کرسکتا ہے۔ ڈی این-3 دشمن کے سیٹلائٹ کو بھی تباہ کرسکتا ہے۔ اس کے بعد امریکا کی سائنسی برادری یہ کوشش کررہی ہے کہ وہ ہمہ جہتی بیلسٹک میزائل بنا لے جو پُرتاب گولہ کے حامل میزائل جو زمین سمندر اور فضا سے حملہ آور میزائل کو روک سکے۔ اس کے پاس کئی قسم کے میزائل ہیں خصوصاً راستے میں روکنے والا میزائل اور تہاڈ میزائل کے علاوہ اور بھی کئی نظاموں کی موجودگی کی اطلاع ہے مگر اب اس پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ روس نے انتہائی تباہ کن ایٹمی ہتھیار تیار کر لئے ہیں اور یہ جدید ترین ایٹمی میزائل دُنیا میں کہیں بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں جبکہ اُن میزائلوں کو امریکی دفاعی نظام بھی نہیں روک سکے گا۔ روسی صدر نے اپنے خطاب کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کی ویڈیوز دکھاتے ہوئے کہا کہ اب امریکا روس کو سلامتی اور تحفظاتی نظام کے حوالے سے کمتر سمجھنا بند کرے اور برابری کی سطح پر بات کرے۔ اس ویڈیو کو دیکھا جائے تو وہ آواز سے 20 گنا رفتار سے یعنی چشم زدن میں دشمن پر جا گرتا ہے۔ ایک ویڈیو میں روس کے میزائلوں کو بحر اوقیانوس کو پار کرتے دکھایا گیا ہے۔ روسی صدر نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران کہا کہ روس نے آبدوز سے چھوڑے جانے والے ڈرون بھی تیار کر لئے ہیں جو ایٹمی حملہ کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ ہائپر سونک نظام یعنی اپنی آواز سے 20 گنا زیادہ تیزی کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کا حامل بتایا جاتا ہے۔ روسی صدر کے اس بیان اور خصوصاً روسی صدر پیوٹن کی طرف سے یہ اعلان کہ اس نے ناقابل تسخیر ہائپر سونک ہتھیاروں اور آبدوزوں کی نئی نسل تیار کرنے کے اعلان کے بعد امریکا نے روس پر الزام لگایا کہ وہ عالمی معاہدہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے اگرچہ امریکا نے خود 1972ء کا میزائل اور ہتھیار بنانے کا معاہدہ 2002ء میں ختم کردیا تھا۔ اس لئے اس کا یہ الزام حالات سے لگا کھاتا نظر نہیں آتا، البتہ اُس کو یہ فکر دامن گیر ضرور ہوگئی ہے کہ روس اور چین اس پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے نے جدید ہتھیا ر بنانے کی توجہ دینی شروع کردی ہے۔ امریکا جو دُنیا کے کئی ملکوں میں خونریزی اور خانہ جنگی کو ہوا دیتا رہا ہے اور وعدہ خلافی کرتا رہا ہے، یاد رہے کہ امریکا نے روس کے سابق صدر گورباچوف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سوئیت یونین کے ٹوٹنے اور 15 ممالک کو آزاد کرنے کے بعد روس کو مزید مشکلات میں نہیں ڈالے گا تاہم اس نے یوکرائن کے ذریعے روس کو تنگ کرنا شروع کیا اور وہاں کافی گڑبڑ شروع کردی۔ روس نے کریمیا پر قبضہ کیا اور مشرقی یوکرائن میں جہاں روسیوں کی کافی بڑی آبادی ہے وہاں خانہ جنگی کرا دی ہے اور امریکا نے یوکرائن کی منتخب حکومت کو گرا کر اپنی پسند کی حکومت بنا ڈالی، اس کے علاوہ سینٹرل ایشیا کے بیشتر ممالک میں اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا۔ وہ ہر طرح سے دُنیا پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کا خواہاں ہے، 1989ء میں روس کی افغانستان میں پسپائی کے بعد وہ دُنیا کی واحد سپر طاقت بنا، اس نے اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے انسانوں کا خون بہانا، دُنیا کے ہر ملک میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھ لیا اور مسلمانوں کو تو اُس نے خاص ہدف بنا لیا، چنانچہ اب تک وہ سات مسلم ممالک کو تباہ کرچکا ہے۔ چین نے معاشی طور پر ترقی کرنا شروع کی تو امریکا کو پیٹ میں درد شروع ہوا، ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017ء میں ایسی اشیاء وہ چین سے خریدتا ہے اُس کو اپنے ملک بنانے کی پالیسی وضع کی تاکہ چین پر انحصار ختم ہو، کیونکہ چین ایک پٹی اور ایک سڑک کا منصوبہ پیش کرچکا تھا، جس کو امریکا نے بالادستی کے خلاف چیلنج کے طور پر دیکھا اور وہ چین کے گرد گھیرا ڈالنے میں بھارت، آسٹریلیا، جاپان، منگولیا، ویت نام اور دیگر ممالک کو چین کے خلاف جمع کرنا شروع کردیا۔ ان میں سے ہر ملک اپنے اپنے طور پر چین اور ایسے ممالک کے خلاف دائرۂ کار بڑھانا شروع کیا جو ان ممالک کے مخالف ہیں، مثال کے طور پر بھارت پاکستان کے خلاف اپنی بھرپور سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، وہ ایران اور اومان کی بندرگاہوں کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ جو پاک چین اقتصادی راہداری کا اہم جزو ہے کو گھیرنے میں استعمال کررہا ہے۔ اس کے بعد چین اور پاکستان نے بھی اپنی بری، بحری اور فضائی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے دشمن کو خبردار کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہر طرح کے حملے اور خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار ہے، چنانچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان میزائل کی دوڑ تو نہیں جای ہے تاہم اگر بھارت کی میزائل کا تجربہ کرتا ہے تو پاکستان اس کے بعد بھارت کو بتا دیتا ہے کہ وہ بھی دفاعی نظام کے حوالے سے غافل نہیں، اس طرح چین نے امریکا پر کم از کم سائبر حملہ سے بچاؤ کے سلسلے میں برتری کوانٹم سیارہ کوانٹم  سیٹلائیٹ کے ذریعے حاصل کی ہوئی ہے جس کا توڑ امریکا ایک سال سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود حاصل نہ کرسکا جس سے وہ کافی فکرمند نظر آتا ہے، پاکستان کے ساتھ اس کا رویہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد کا بدل گیا ہے، اب پاکستان اور خود امریکا اس رویہ میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں، البتہ پاکستان کی بھی یہی ترجیح ہے کہ وہ ایٹمی حملہ سے بچاؤ کے لئے کوئی دفاعی نظام بنا لے کیونکہ ایٹمی حملہ سے محفوظ ہونے کے لئے ڈھال کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

مطلقہ خبریں