Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ایران کے منصف۔۔ ایران کے صدر بن گئے

سید ابراہیم رئیسی کو ایرانی عوام نے بھاری اکثریت سے منتخب کیا
معظم خان
یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ ایران کے صدارتی انتخابات میں ایرانی عوام نے ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کیا ہے جو ایک عرصہ تک جج کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور ان کے غیرجانبدارانہ اور جرأت پسندانہ فیصلوں کو بھی ایرانی عوام قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انہوں نے ابراہیم رئیسی کو اسی لئے کامیاب کروایا ہے کہ جس طرح وہ اپنے عدالتی فیصلوں میں انصاف فراہم کرتے رہے ہیں اسی طرح وہ بطور ایرانی صدر بھی اپنے عہدے سے انصاف کریں گے۔
نئے ایرانی صدر کی عالمی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان سمیت دُنیا کے بہت سے ممالک نے سید ابراہیم رئیسی کو ایران کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ اس سے خطے میں امن کا ایک نیا دور شروع ہوگا، تاہم اسرائیل کے نئے وزیراعظم کو نئے ایرانی صدر کے آنے سے پریشانی لاحق ہوگئی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک سخت گیر شخص ہیں جس سے خطے کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے، جبکہ حکومت پاکستان کو اُمید ہے کہ نئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اپنی بہترین صلاحیتوں کی بدولت خطے میں پائی جانے والی تلخی کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں تاریخی فتح سمیٹنے پر میں عزت مآب برادر سید ابراہیم رئیسی کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دونوں ممالک کے مابین برادرانہ تعلقات میں مزید پختگی، علاقائی امن، ترقی اور خوشحالی کے حصول کے لئے میں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہوں۔
سید ابراہیم رئیسی ایران کے منصف اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سخت گیر خیالات رکھتے ہیں۔ ابراہیم رئیسی پر امریکا نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں سیاسی قیدیوں کی پھانسی دینے جیسے الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں۔ رہبر اعلیٰ کے بعد ایران میں صدر کا عہدہ ملک میں سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اگرچہ صدر کا داخلہ اور خارجہ پالیسی پر گہرا اثر ورسوخ ہوتا ہے مگر سپریم لیڈر یعنی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کی ہر ریاستی معاملے پر بات حرفِ آخر ہوتی ہے۔ ابراہیم رئیسی 60 برس کے ہیں اور وہ اپنے کیریئر میں زیادہ وقت پراسیکیوٹر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ انہیں 2019ء میں عدلیہ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ سنہ 2017ء میں وہ صدر حسن روحانی سے بڑے مارجن سے ہار گئے تھے۔ ابراہیم رئیسی نے مارچ 2016ء میں ایران کے سب سے امیر اور اہم ترین مذہبی ادارے امام رضا علیہ السلام فاؤنڈیشن، آستان قدس رضوی کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ ادارہ مشہد میں امام رضا علیہ السلام کے مزار کی نگرانی کرتا ہے۔ یہ عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس ادارے کا بجٹ اربوں ڈالر کے برابر ہے اور یہ فاؤنڈیشن ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں اور تیل و گیس کمپنیوں اور کارخانوں میں آدھی اراضی کی مالک ہے۔ ایران میں متعدد لوگوں کے خیال میں اس منصب پر ان کی تقرری کا مطلب یہ ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای انہیں آئندہ انتخابات میں کامیاب کرانے کے بھی خواہشمند تھے۔
سید ابراہیم رئیسی اپنے آپ کو بدعنوانی کے خاتمے اور معاشی مسائل کے حل کے لئے بہترین انتخاب کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاہم متعدد ایرانی اور انسانی حقوق کے علمبردار ان کے 1980ء کی دہائی میں سیاسی قیدیوں کے بڑے پیمانے پر قتل میں کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایران نے کبھی بڑے پیمانے پر قتل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ابراہیم رئیسی نے بھی کبھی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر کچھ نہیں کہا۔ ابراہیم رئیسی کے دورِحکومت میں سخت گیر عناصر ایک خالص قسم کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کریں گے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مزید سماجی سرگرمیوں پر کنٹرول حاصل کرلیں گے اور ممکن ہے کہ ایسے میں خواتین کے لئے آزادی اور ملازمتوں کے مواقع مسدور ہو کر رہ جائیں گے اور سوشل میڈیا اور پریس پر بھی کنٹرول زیادہ ہوجائے گا۔ سخت گیر خیالات والوں کو مغرب شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مگر ابراہیم رئیسی اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ایران کی جوہری پروگرام کے عالمی معاہدے میں واپسی کے خواہاں ہیں۔ سنہ 2015ء میں ایران نے جس جامع حکمت عملی کے پلان پر دستخط کے ذریعے جوہری سرگرمیاں بند کرنے پر اتفاق کرنے پر ایران کو مغربی ممالک کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں میں ریلیف ملا تھا، امریکا اس معاہدے سے 2018ء میں نکل گیا تھا اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک بار پھر ایران پر سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔ ان پابندیوں سے عام ایرانی کی زندگی پر سخت اثرات مرتب ہوئے، جس سے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان جیسی کیفیت پیدا ہوئی۔ صدر جوبائیڈن کے منتخب ہونے کے بعد ویانا میں امریکا اور ایران کے درمیان ایک بار پھر اس معاہدے کی بحالی پر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، تاہم دونوں فریق ایک دوسرے کو پہل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق سید ابراہیم رئیسی نے 62 فیصد ووٹ لے کر صدارتی الیکشن میں فتح حاصل کرلی ہے۔ الیکشن میں 2 کروڑ 80 لاکھ افراد نے رائے شماری میں حصہ لیا جن میں سے ایک کروڑ 78 ہزار ووٹ ابراہیم رئیسی کو ملے۔ سرکاری سطح پر ابراہیم رئیسی کی فتح کے اعلان سے قبل ہی ایران کے سبکدوش ہونے والے صدر حسن روحانی نے کہا کہ پُرامن الیکشن کے ذریعے نئے صدر کا انتخاب کرلیا گیا ہے، میں کامیاب امیدوار کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ حسن روحانی نے نئے صدر کا نام نہیں لیا تھا تاہم انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کس نے الیکشن میں درکار ووٹ حاصل کر لئے اور عوام نے کس کو آج منتخب کیا ہے۔ حسن روحانی کے برعکس دیگر دو سخت گیر امیدواروں محسن رضائی اور امیر حسین غازی زادہ ہاشمی نے ابراہیم رئیسی کو نام لے کر مبارکباد دی تھی۔ اسی طرح صدارتی الیکشن میں حصہ لینے والے اصلاح پسند امیدوار عبدالنصر حماتی نے بھی ٹوئٹر پر ابراہیم رئیسی کو نام لے کر کامیابی پر مبارکباد دی تھی۔ عبدالنصر حماتی مرکزی بینک کے سابق گورنر بھی تھے۔
ان انتخابات میں حصہ لینے کے لئے 600 خواہشمند سامنے آئے تھے، جن میں 40 خواتین بھی شامل ہیں۔ گارڈین کونسل میں شامل 12 جیورسٹس اور مذہبی زعما نے صرف 7 امیدواروں کے نام ہی فائنل کئے۔ گارڈین کونسل ایک غیرمنتخب ادارہ ہے جو امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ کرتا ہے۔ ان میں سے تین امیدواروں نے انتخابات سے قبل اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے۔ اس طرح کے عمل کے بعد کچھ سیاسی مخالفین اور اصلاحات کے خواہشمندوں نے انتخابات کا بائیکات کیا۔ ان صدارتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے کم رہا ہے۔ یاد رہے کہ سنہ 2017ء کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 73 فیصد تھا۔ متعدد ایرانی ان انتخابات کو سخت گیر عناصر کی طرف سے طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں جو بظاہر ماضی میں اپنی کارکردگی کی بدولت آزادانہ اور شفاف انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ ان تمام حالات واقعات سے اگر ہٹ کر بات کریں تو نئے صدر ابراہیم رئیسی پر اب سب سے بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پچھلے 40 برس سے دوریاں ہیں جس کی وجہ صیہونی قوتوں کو سر اٹھانے اور عالم اسلام کو کمزور کرنے کا موقع ملا ہے، نئے ایرانی صدر ان دوریوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے جس کا آغاز سابق ایرانی صدر کے دور میں ہوچکا تھا کیونکہ اس وقت طاغوتی قوتیں اسلام کے خلاف جس طرح کی گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہیں، اگر اس موقع پر اسلامی قوتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی نہ ہوئیں تو اس کا کسی ایک اسلامی ملک کو نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کو نقصان پہنچے گا۔

مطلقہ خبریں