ڈاکٹر رشید احمد خاں
ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے حال ہی میں پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔ اپنے اس دورے کے دوران ایرانی وزیرخارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب خواجہ محمد آصف، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، صدر مملکت ممنون حسین کے علاوہ چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ ایرانی وزیر خارجہ 30 رکنی وفد کی قیادت کررہے تھے، جس کے ارکان کا اپنے ملک کی مختلف وزارتوں کے علاوہ ایران کی مسلح افواج سے بھی تعلق تھا۔ جن امور پر بات چیت ہوئی ان میں علاقائی امن اور سلامتی، خصوصاً افغانستان، دوطرفہ تعلقات اور باہمی تجارت میں اضافہ شامل ہیں۔ ایران کے وزیرخارجہ اپنے وفد کے ہمراہ ایک ایسے وقت پر پاکستان کے دورے پر آئے جب نہ صرف دونوں ملکوں کے اردگرد واقع خطوں میں اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں بلکہ ایران اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کے بعض پہلوؤں پر بھی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے سعودی عرب میں تمام ضروری ہتھیاروں سے لیس ایک ڈویژن فوج بھیجنے کا اقدام، پاکستان ایران اور افغانستان کے بارے میں امریکی صدر کی جارحانہ ڈپلومیسی، افغانستان کی خانہ جنگی میں تیزی اور ایران بھارت تعلقات میں اضافہ ایسے واقعات ہیں، جن سے نہ ایران اور نہ ہی پاکستان مکمل طور پر لاتعلق رہ سکتا ہے۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں دوٹوک الفاظ میں پاکستان کی اس پالیسی کو دہرایا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف سعودی عرب کے دفاع کے لئے بھیجی گئی ہیں اور انہیں سعودی عرب سے باہر کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ایران اور بھارت کے درمیان سفارتی، اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون میں حال ہی میں جو اضافہ ہوا ہے، اس پر پاکستان کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی ایک قدرتی امر ہے۔ ان میں خلیج فارس کے ساحل پر واقع ایران کی بندرگاہ چابہار کی بھارتی امداد سے تعمیر و توسیع سرفہرست مسئلہ ہے کیونکہ ایران کی یہ بندرگاہ گوادر سے زیادہ دور نہیں۔ اور بعض حلقوں کی طرف سے اسے گوادر کے مقابلے میں لا کر چین پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی کوشش قرار دے رہے ہیں، لیکن ایرانی وزیرخارجہ نے پاکستان میں قیام کے دوران میں اس تاثر کو غلط قرار دیا اور کہا کہ چابہار اور گوادر ایک دوسرے کی حریف نہیں بلکہ معاون بندرگاہیں ہیں۔
یاد رہے کہ ایران سی پیک کی نہ صرف حمایت بلکہ اس میں شرکت کی خواہش کا اعلان بھی کرچکا ہے۔ لیکن بھارت کی مدد سے ممبئی سے ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا تک ناردرن کاریڈور (ناردرن کوری ڈور) فعال بنانے کا نتیجہ پاکستان کے حق میں اچھا نہیں آرہا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ایران اور بھارت متعدد شعبوں میں، جن میں دفاع بھی شامل ہے، قریب آ رہے ہیں بلکہ پاک افغان دوطرفہ تجارت، جو ایک زمانے میں 2 بلین ڈالر سالانہ تھی، اب گھٹ کر ایک تہائی رہ گئی ہے۔ یہ تجارت اور معیشت کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے اہم سیاسی مضمرات ہیں اور اگر پاکستان کو اس صورتِ حال کا سامنا ہے تو اس کی ذمہ داری افغانستان اور ایران سے زیادہ خود پاکستان کی متزلزل اور مبہم علاقائی پالیسی پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ پاک افغان بارڈر کے بار بار بند ہونے سے افغانستان کو پاکستان پر اپنا انحصار کم کر کے ایران کے راستے متبادل تجارتی راستہ اختیار کرنا پڑا، اور 2015ء کے ایٹمی سمجھوتے کے بعد جب ایران پر سے امریکا اور اقوام متحدہ کی طرف سے عائد پابندیوں کے خاتمے کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان نے دیگر ممالک کے برعکس ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی بحالی میں سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی واضح مثال ایران پاکستان انڈیا (آئی پی آئی) گیس پائپ لائن کی عدم تکمیل ہے، حالانکہ ایران اپنے علاقے میں اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کرچکا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا (ٹی اےپی آئی ) گیس پائپ لائن کی تعمیر و تکمیل میں زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا ہے حالانکہ تاپی کی طرح آئی پی آئی گیس پائپ لائن بھی ملک کی گیس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اہم ہے لیکن موخرالذکر پر ابھی تک دونوں ملکوں کے درمیان ڈیڈلاک ہے۔
ایرانی وزیرخارجہ کے دورۂ پاکستان کا ایک مقصد آئی پی آئی گیس پائپ لائن کی تعمیر و تکمیل کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کرنا ہے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ ایرانی وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور ایران نے آئی پی آئی کے منصوبے کو خیرباد نہیں کہا اور اس پر موجود اختلافات کو جلد دور کردیا جائے گا۔ ایرانی حکام آئی پی آئی کی بحالی اور تعمیر سے متعلق بہت پْرامید ہیں کیونکہ وہ اسے پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں اپنی سفارت کاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ایران اس پائپ لائن کو جنوبی ایشیا کے کشیدہ حالات میں امن پائپ لائن (پیس پائپ لائن ) قرار دے چکا ہے۔ صرف گیس پائپ لائن پر ہی نہیں بلکہ دوطرفہ تجارت پر بھی پاکستان اور ایران کے درمیان پیش قدمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایران پر عائد شدہ عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث پاکستان اور ایران کی دوطرفہ تجارت بہت گھٹ گئی تھی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2015ء میں جب ایران پر پابندیاں لاگو تھیں، ایران میں پاکستانی برآمدات کی مالیت 31.45 ملین ڈالر تھی، جبکہ ایران سے پاکستان نے صرف 2 لاکھ 70 ہزار ڈالر کا سامان درآمد کیا، حالانکہ ایران اور پاکستان کی دوطرفہ تجارت کا حجم ماضی میں کئی بلین ڈالرز ہوا کرتا تھا۔ ایران کے وزیرخارجہ کے دورۂ پاکستان کے دوران دونوں ملکوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دوطرفہ تجارت کو آئندہ تین برسوں میں 5 بلین ڈالر سالانہ تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن اس قسم کا اعلان 2016ء میں بھی کیا گیا تھا جب پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ لیکن اس اعلان پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ اس وقت ایران پاکستان دوطرفہ تجارت کا حجم جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ اس کی ایک وجہ علاقائی اور عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے تیور ہیں۔ ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ معاہدے سے علیحدگی اور ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات نے بھی علاقے میں تشویشناک صورتِ حال پیدا کر رکھی ہے، چونکہ ان دونوں ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی مجبوری ہے، اس لئے موجودہ حکومت نے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کے مقابلے میں یورپی یونین، روس، چین اور بھارت نے امریکا اور سعودی عرب کے ردعمل کی پروا کئے بغیر ایران کے ساتھ اربوں ڈالر کے نئے معاہدے کئے ہیں، جن میں ایران کے خام تیل کی خریداری بھی شامل ہے، مگر پاک ایران تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں مطلوبہ پیش رفت نہ ہونے کے باوجود، دونوں ملکوں کے درمیان ان کے علاوہ سیاسی، ثقافتی اور دفاعی شعبوں میں نمایاں اضافے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ پاکستان اور ایران کے عوام کے درمیان محبت، خیرسگالی اور بھائی چارے کے لازوال تعلقات ہیں، جو دراصل صدیوں پْرانے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی روابط کی پیداوار ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں یہ احساس شدت سے پایا جاتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون ایک دوسرے کے مفاد میں ہے۔ مثلاً ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت، اقتصادی تعاون اور مشترکہ سرحد پر منشیات اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام اور دہشت گردوں کے خلاف اشتراکِ عمل اس خطے کو امن کا گہوارہ بنا سکتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں ایران کے ساتھ تعاون سے صوبہ بلوچستان میں ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ سی پیک کی تعمیر اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے دونوں ملک مستفید ہوں گے۔ ایران نے سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کی شمولیت سے سی پیک کی نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی پوزیشن مضبوط ہوگی۔ اسی طرح پاکستان، افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے میں ایران کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔