Thursday, July 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

اُمید کی کرن

اے مری جان ذرا وقت کی زنجیر کو دیکھ
جس کا ہر حلقہئ سنگین ہے زنداں کی مثال
قید ہیں جس میں تمناؤں کے معصوم پرند
جس میں مغموم ہیں امکان کے دزدیدہ چراغ
آ کبھی درد کی خاموش سزا سے نکلیں
آ کبھی خوف کی پُرہول فضا سے نکلیں
آ کبھی صورتِ حالات سے ٹکرا جائیں
آ کبھی ہجر کے لمحات سے ٹکرا جائیں
پھونک ڈالیں یہ خرافات کا پندارِ قدیم
توڑ ڈالیں یہ روایات کی دیوارِ قدیم
اپنی تنہائی کو کیوں شہر میں بدنام کریں
اپنے احوال کا اظہار سرِعام کریں
آگ سی آگ لگی ہے سرِ انفاس یہاں
میں اکیلا ہوں نہیں کوئی مرے پاس یہاں
صورتِ عشق کبھی خواب نہیں ہوتی ہے
شاخ جل جائے تو شاداب نہیں ہوتی ہے
آرزو اب کسی احوال کی محتاج نہیں
خواہشِ وصل مہ و سال کی محتاج نہیں
کیف آگیں ہے ابھی آنکھ سخن زندہ ہے
ایک اُمید کی موہوم کرن زندہ ہے
رات زندہ ہے، ابھی میرا بدن زندہ ہے


خواجہ رضی حیدر


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل