Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

انٹری ٹیسٹ

انٹری ٹیسٹ کے بارے کہا جاتا ہے یہ ایک طرف وقت کا ضیاع بچوں پر ذہنی تشدد ہے  تو دوسری جانب اعلیٰ تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے

ضمیر آفاقی

پنجاب حکومت کی جانب سے صحت اور تعلیم کے ساتھ دیگر شعبوں میں کی جانے والی کوششیں بلاشبہ دیگر صوبوں سے زیادہ بہتر اور نمایاں ہیں جبکہ تعلیم کا فروغ تو شاید شہباز شریف کا خواب ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ کام ایسے ہیں جو ان کی کارکردگی اور کوششوں پر سوالیہ نشان ہیں۔ ان میں ایک ’’انٹری ٹیسٹ‘‘ بھی ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے یہ ایک طرف وقت کا ضیاع بچوں پر ذہنی تشدد ہے تو دوسری جانب اعلیٰ تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ اس سال پنجاب کے 17 سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کی 3405 جبکہ 3 سرکاری ڈینٹل کالجوں میں بی ڈی ایس کی 216 نشستوں پر داخلے کے لئے لاہور سمیت پنجاب کے 13 بڑے شہروں میں انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا، جس میں 65 ہزار سے زائد بچوں نے شرکت کی۔ یہ تمام وہ بچے تھے جو پہلے ہی اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتے آئے ہیں۔ انٹری ٹیسٹ میں حصہ لینے والے طلبا و طالبات نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انٹری ٹیسٹ کو اضافی بوجھ اور وقت و پیسے کا ضیاع قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انٹری ٹیسٹ کو ختم کر کے میڈیکل کالجوں میں میٹرک اور ایف ایس سی کے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر میرٹ کے مطابق داخلہ دیا جائے۔ ان بچوں کے ساتھ والدین اور افراد معاشرہ کا کہنا ہے کہ اضافی انٹری ٹیسٹ لینا طلبا کے ساتھ زیادتی ہے۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے والدین کے ہزاروں روپے اضافی خرچ ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے عمل کو میرٹ کے مطابق سہل بنائے۔ یہ فوری توجہ طلب مسئلہ ہے جس سے لاکھوں طلبا کا مستقبل وابستہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہئے، میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے جن لوگوں نے تعلیم کے نام پر دکانداریوں کا خاتمہ اور سرکاری سطح پر طلبا کو میڈیکل ٹیچروں کی نگرانی میں تیاری کے مواقع فراہم کئے جائیں۔
اس ضمن میں رکن پنجاب اسمبلی سعدیہ سہیل رانا نے تحریک التوائے کار پنجاب اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب بھر کے 35 سے زائد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلوں کی غرض سے جن نجی اکیڈمیوں نے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ان کی تعداد صوبائی دارالحکومت کی سطح پر 200 سے زائد ہے جو انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی فیس گھنٹوں کے حساب سے لیتی ہیں اور فی الوقت ایگزیکٹو گروپ تیاری کی فیس فی طالبعلم پچاس ہزار روپے سے بھی زائد وصول کی جاتی ہے۔ اس میں انٹری ٹیسٹ کی مقررہ تاریخ قریب آنے تک مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے میڈیکل سائنسز کے اہم ادارے، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، محکمہ صحت پنجاب اور محکمہ تعلیم پنجاب تاحال اکیڈمی مافیا کو اپنے دائرہ کار میں لانے سے قاصر ہیں یا جان بوجھ کر چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اس کی جانکاری بھی ہونی چاہئے۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ انٹر میڈیٹ کے امتحان کے بعد ملازمت مل سکتی ہے تو میڈیکل کالجوں میں داخلہ کیوں نہیں مل سکتا۔ یہ تو واضح طور پر انٹرمیڈیٹ بورڈ پر عدم اعتماد ہے۔ اب اس امتحان پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ انٹری ٹیسٹ کے لئے ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں جو امیر بچے افورڈ کر سکتے، لاکھوں روپے رشوت بھی دے سکتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ ان بچوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہے جو دن رات محنت کر کے اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں لیکن انٹری ٹیسٹ میں شامل نہیں ہو پاتے اور یوں گلیوں کی خاک چھان رہے ہوتے ہیں۔ انٹرمیڈیٹ کے لئے 40 فیصد اور انٹری ٹیسٹ کے 50 فیصد نمبر بنائے گئے ہیں کئی لوگ جو انٹر مینڈیٹ امتحان کے لئے دس بارہ دنوں میں اتنا نہیں کما سکتے جو انٹری ٹیسٹ کے تین گھنٹوں میں کما لیتے ہیں۔ امتحان پر اعتراض اٹھانے والے انٹری ٹیسٹ پر بھی اعتراض اٹھانے لگے ہیں اور اسے زیادہ بڑا کاروبار سمجھنے لگے ہیں۔ تعلیمی بہتری کا خواب نظام امتحانات میں اصلاحات کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
داخلہ ٹیسٹ میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے لیا جاتا ہے۔ چنانچہ جن طلبا کی منزل ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہوتا ہے وہ بالترتیب ایم کیٹ اور ای کیٹ نامی ٹیسٹ دیتے ہیں۔ اگرچہ ایف ایس سی کے امتحانات کے ذریعے طلبا کی اہلیت کو جانچ لیا جاتا ہے اور ماضی میں انٹر کے رزلٹ کی بنیاد پر ہی داخلے دیئے جاتے تھے مگر انٹری ٹیسٹ کو متعارف کرایا گیا یعنی ایک اور امتحان کا اضافہ کردیا گیا۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے نام پر طلبا کو بے پناہ ذہنی اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے لیکن حکومت یا محکمہ تعلیم اس ناانصافی کا نوٹس لینے کے لئے تیار نہیں۔ انٹری ٹیسٹ کا مقرر کردہ سلیبس ایف ایس سی کی نصابی کتابیں ہی ہوتی ہیں لیکن بچوں کو ’’ذہنی تشدد‘‘ کا نشانہ اس طرح سے بنایا جاتا ہے کہ ہر اکیڈمی نے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے اپنی علیحدہ کتب تیار کی ہیں۔ نسبتاً چھوٹی اکیڈمیاں نوٹس بنا لیتی ہیں اور طلبا کو یہ کتب پڑھنے پر ناصرف مجبور کیا جاتا ہے بلکہ ستم یہ کہ ٹیسٹ بھی انہی میں سے لیا جاتا ہے۔ نتیجتاً طالب علم ٹیکسٹ بک کو چھوڑ کے ان کتب کو پڑھتا ہے جس کا نتیجہ ذہنی دباؤ کی صورت نکلتا ہے۔ اکیڈمیاں بچوں کے ساتھ یہ ظلم صرف پیسے کمانے کی خاطر کرتی ہیں کیونکہ ہر طالب علم سے ان کتابوں کے 2500 روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ یوں ناصرف بچوں کے لئے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کو مشکل بنایا جاتا ہے بلکہ والدین کی جیبوں سے ناجائز پیسے بھی بٹورے جاتے ہیں۔
فیسوں کا جائزہ لیا جائے تو مختلف اکیڈمیوں نے اپنے ریٹ مختلف رکھے ہوئے ہوئے ہیں۔ مشہور اور بڑی اکیڈمیاں 30 سے 35 ہزار اور چھوٹی اکیڈمیاں 20 ہزار روپے تک فیس وصول کرتی ہیں۔ دیکھا جائے تو انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے والے طلبا کی اکثریت ناصرف ذہین ہوتی ہے بلکہ ان کے ایف ایس سی میں نمبر بھی اچھے ہوتے ہیں۔ اب ایسے طلبا کو وہی سلیبس پڑھانے کے اتنے زیادہ پیسے لینا جو انہوں نے ناصرف پڑھا بلکہ اچھے نمبروں سے پاس بھی کیا ہوتا ہے، شدید ناانصافی ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم ایک انڈسٹری بن چکی ہے۔ پرائیویٹ اسکول اور کالجوں کی ہوشربا فیسوں سے ہٹ کر صرف انٹری ٹیسٹ کا جائزہ لیا جائے تو حیران کن اعداد وشمار سامنے آتے ہیں۔ میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہونے والے طلبا کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہوتی ہے جبکہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کا دورانیہ تقریباً تین ماہ تک کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے یہ تقریباً 3 ارب روپے کی لوٹ مار بنتی ہے اور یہ 3 ارب روپے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس والدین کی جیبوں سے ہی نکلوایا جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ جو طالبعلم بھی اچھے نمبروں سے پاس ہو اسے داخلہ ملنا چاہئے جس کے لئے حکومت کو میڈیکل کالجز کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہئے۔ حکومت اپنی اس نااہلی کو چھپانے کے لئے اس طرح کے حربے (انٹری ٹیسٹ) استعمال کرتی ہے تاکہ بچے مقرر کردہ نمبر حاصل نہ کرسکیں اور اسے جواب دہ نہ ہونا پڑے۔ ملک میں ڈاکٹرز کی قلت کے پیش نظر میڈیکل کی تعلیم کو عام اور سستا کرنا چاہئے۔ اسی طرح حکومت کا سارا زور میٹرک تک تعلیم فراہم کرنے پر ہی ہے۔ ہر سال لاکھوں بچے میٹرک کرتے ہیں لیکن ان کے لئے کالجز نہیں ہیں۔ یہ لاکھوں بچے کہاں جاتے ہیں اس سوال پر غور کرنا کس کا کام ہے؟ تعلیم اور صحت ایسے شعبے ہیں جنہیں کمائی کا نہیں بلکہ خدمت کا ذریعہ ہونا چاہئے جبکہ حکومت اس میں جرم میں برابر کی شریک ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل