Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکی کاؤ بوائے روپ

یہ درست ہے کہ ہر ملک کی پالیسی اُس کے مفاد پر مبنی ہوتی ہے مگر امریکہ کچھ زیادہ ہی اپنے مفادات کے تحفظ کے معاملے میں حساس ہے، شاید اُس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ایک سپر طاقت ہے، اس لئے وہ اپنی من مانی کرنے پر تلا رہتا ہے، مختلف ممالک سے کام لیتا ہے اور پھر انہیں خیرباد کہتے ہوئے دیر نہیں لگاتا، وہ وعدے وعید کا رتی برابر خیال نہیں رکھتا،امر واقعہ یہ ہے کہ 9/11 کے حادثے کے بعد دُنیا کے کسی اور ملک نے امریکہ کا اتنا ساتھ نہیں دیا جتنا کہ پاکستان اُس کے ساتھ کھڑا رہا۔ پاکستان نے جس تندہی کے ساتھ اُس کے ساتھ رہا اُس کا اعتراف سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کیا جس کے راوی اس دور کے وزیرداخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر ہیں کہ ہیلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے غلطی کی کہ روس کی افغانستان سے پسپائی کے بعد افغانیوں کو بغیر بسائے اور پاکستان کو افغانستان کی بدامنی کا بوجھ اٹھانے کے لئے چھوڑ دیا، ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا مگر پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے آ کر پاکستان کے خلاف بیانات سے آگے بڑھ کر عملاً پاکستان کے خلاف کارروائی شروع کردی، انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ کی حمایت میں کچھ نہیں کررہا ہے اس لئے اس کی امداد بند کردی یہاں تک کہ 800 ملین ڈالرز جو اتحادی فنڈز پاکستان کو ملنے تھے جو پاکستان پہلے ہی خرچ کر چکا ہے بھی روک دیئے، یہ انتہائی نامناسب ہے، جواباً پاکستان کے وزیراعظم نے کرارا بیان دیا کہ پاکستان جو کچھ کرسکتا تھا وہ اس نے کیا، اس کے بعد پاکستان اب کسی کی جنگ نہیں لڑے گا، اس نے غلطی کی امریکہ کی جنگ لڑی، نتیجے میں بے تحاشا نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے امریکہ کی 9/11 کے بعد مکمل حمایت کا اعلان کیا، افغان طالبان سے رشتہ توڑا، امریکہ کو پانچ فضائی اڈے فراہم کئے اور پاکستان امریکہ کو 4 لاکھ لیٹر تیل روزانہ فراہم کرتا تھا، جس کی وجہ سے افغان طالبان نے پاکستان میں خودکش حملے شروع کئے اور پاکستان کو 75 سے 80 ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا، اس کے چھ ہزار کے قریب فوجی شہید ہوئے، پاکستان نے امریکہ کو پسنی کی بندرگاہ فراہم کی جہاں 8 ہزار امریکی فوجی قیام کرتے تھے، پاکستان نے امریکہ کو 500 سے زیادہ طالبان پکڑ کر دیئے جو پاکستان کی تاریخ میں ایک بدنما داغ ہے، اس نے 99 چھاپے صرف پہلے سال میں مارے، امریکی انٹیلی جنس کو کام کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی، پاکستان نے مغربی سرحد پر 665 چیک پوسٹیں قائم کیں اور ہر چوکی پر 40 فوجی تعنیات کئے اورامریکہ پر پاکستان کی طرف سے طالبان حملے کو حتیٰ الامکان روکا جس سے طالبان کو کمک نہ مل سکی، امریکہ کو ایک طرف سے سکون حاصل رہا، خود امریکی سینٹرل کمانڈ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگرچہ پاکستان کو اپنی مشرقی سرحدوں پر خطرات لاحق تھے مگر پھر بھی اس نے امریکہ کے لئے مغربی سرحد کو محفوظ بنایا، اس کے نتیجے میں میدان جنگ میں شہادتوں کی تعداد6 ہزار نوجوانوں تک جا پہنچی، یہ تعداد امریکی اموات سے تین گنا زیادہ تھیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق پاکستان کو صرف 2002ء میں 10 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا اور سول آبادی کو جو نقصان ہوا، خودکش اور بموں کے حملوں کو جھیلا وہ الگ۔ اور نقصانات کا یہ سلسلہ وقت کے ساتھ دراز ہوتا چلا گیا اور 75 سے 120 بلین ڈالرز کا تخمینہ لگایا جاتا ہے جس میں 75 بلین ڈالرز بلاواسطہ اور 35 بلین ڈالرز بالواسطہ نقصانات شامل ہیں،مزید بر آں پاکستان نے اسٹرٹیجک فورس بھی مغربی سرحد پر لگا دی، مبادا کوئی ڈرٹی بم استعمال کرے، یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے مگر اب اس کو عام کرنا پڑی تاکہ امریکی صدر کو بتلایا جاسکے کہ پاکستان نے امریکہ کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، پاکستانی عوام اور مسلح افواج پر 500 خودکش حملے ہوئے، پاکستان کے معصوم بچوں اور شہریوں کو شہید کیا گیا تو پاکستان نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کرکے دہشت گردی پر قابو پایا، اس کے علاوہ پاکستان نے 30 لاکھ افغان باشندوں کو روس کے خلاف امریکی جنگ سے افغانیوں کو پناہ دی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر معاشی بوجھ کے علاوہ سماجی مسائل اور جرائم بڑھے، امریکہ کے ایک انٹیلی جنس افسر میکائل شیور نے 7 اپریل 2006ء کو واشنگٹن پوسٹ میں لکھا کہ جنرل پرویز مشرف ملک کے مفاد کے خلاف کام کررہے ہیں، ایک بڑا اور حادثہ ہونے بچا کہ جس کی اطلاع 14 اکتوبر 2005ء میں نیو یارک ٹائمزنے دی کہ جارج بش نے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے جارج بش نے کہا کہ وہ بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لئے سعودی عرب، ایران، شمالی کوریا اور پاکستان پر حملہ کرسکتے ہیں۔ اب سعودی عرب کے پاس ایٹمی ہتھیارتو نہ تھے البتہ اُن کے کئی لوگ 9/11 کا حصہ تھے اس وجہ سے وہ زد میں آتے الزام وہی کھاتے جو صدام حسین پر لگایا تھا، ایران پر حملہ اسرائیل کی وجہ سے کرنا چاہتے تھے اور شمالی کوریا کی نوبت بعد میں آتی پہلے اس حصے میں پاکستان پر توجہ دیتے مگر شاید پاکستان نے اُن پر واضح کردیا کہ وہ معاملہ یہاں تک نہیں آنے دیں گے اگر اُن پر حملہ ہوا تو وہ کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں، جس نے امریکہ کو باز رکھا ہوگا، یہی طالبان ایک زمانہ میں امریکہ ڈارلنگ تھے اور اُن کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے اور جہادی کے نام سے سرفراز کیا تھا اور اب وہ دہشت گرد بن گئے تھے صرف اس وجہ سے کہ اسامہ بن لادن یہاں رہتے تھے جو القاعدہ کے سربراہ تھے، طالبان اس پر بھی سمجھوتہ کرنے کو دستیاب تھے کہ وہ اسامہ بن لادن کو تیسرے ملک کے حوالے کرنے پر راضی ہوگئے تھے مگر امریکہ نہ مانا کیونکہ امریکہ کاؤ بوائے ازم کا علمبردار ہے جو کسی کا نہیں ہوتا، دو کاؤبوائے ایک ساتھ ایک مشن پر جائیں جو مشن میں کامیابی کے بعد ایک دوسرے کے دشمن ہوجاتے ہیں، ایک دوسرے کو مار دیتے ہیں یا ایک دوسرے پر حملہ کردیتاہے،وہ کسی اخلاقیات کے اصول سے صرفِ نظر کرتے ہیں، طاقت اور مارنا اُن کی زندگی کا مشن ہوتا ہے، موجودہ افغان جنگ کو شروع ہوئے ، جارج ڈبلیوبش یہ کہتے سنے گئے کہ 9/11کے بعد جب انہوں نے پینٹا گون کا دورہ کیا تو وہاں کمانڈروں نے کہا کہ عراق پر حملہ کرنا چاہتے ہیں،صدر بش نے دریافت کیا کہ عراق کا القائدہ سے تعلق ہے ؟تو انہوں نے جوابا کہا کہ نہیں مگر ہمیں کسی نہ کسی پر تو حملہ کرنا ہے۔اسی طرح افغانستان کی جنگ شروع ہوئے 17 برس بیت گئے اس میں بھی زیادہ تر کرائے کے فوجی مارے گئے ہیں، امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کے بعد پاکستان کا یہ عزم کا اظہار کہ وہ کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے، درست ہے مگر جو نقصانات ہوئے ہیں ان کو کیسے سنبھالا جائیگا ۔ پاکستان کو چاہئے کہ دو ٹریلین ڈالرز کا بل امریکہ کو دیدے اور وقت کا انتظار کرے جب امریکہ لوٹ کر پاکستان کے پاس آئے تو اس کو اپنی شرائط پر امریکہ سے دوستی کرنا چاہئے، کاؤبوائے ازم میں یہ طریقہ قابل قبول ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنی شرائط پر ساتھ دیا جاتا ہے اس لئے امریکہ کے لئے یہ اچھنبے کی بات نہیں ہوگی۔

مطلقہ خبریں