Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

امریکا کی بالادستی جنگ اور یوکرائن تنازع

امریکا نے اپنی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے جو منصوبہ بنایا تھا وہ 2010ء میں دُنیا کے سامنے لایا، امریکا کی عالمی بالادستی کو 2005ء کے لگ بھگ روس اور چین سے خطرہ لاحق ہوا تو اس نے ایک طویل مدتی منصوبہ بنایا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اب بھی سرگرم ہے اور اس کے لئے اس نے چار اقدامات تجویز کئے، اول یہ کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لے تاکہ یورپی یونین کمزور ہوجائے کیونکہ اس کو خدشہ تھا کہ اس کشمکش میں یورپی یونین خود عالمی طاقت بن کر امریکا کے سامنے آ کھڑی ہوسکتی ہے، چنانچہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل گیا۔ دوسرے قدم کے طور پر یورپ اور امریکا سے ایشیائی اور افریقی باشندوں کی اپنے اپنے ممالک واپسی کا عمل ہونا تھا، سو وہ ہورہا ہے، تیسرا قدم یہ تھا کہ عالمی کساد بازاری شدت کی جائے گی جو کووڈ-19 کے ذریعے ساری دُنیا پر لاگو کردی ہے، دُنیا کے سارے ممالک اس کی زد میں آ گئے ہیں، یہاں تک کہ خود امریکا بھی اس سے بُری طرح متاثر ہوا ہے، اس لئے اُس کو ذرا فکر نہیں ہے کیونکہ دُنیا میں پیٹرو ڈالر کی کرنسی کا نظام رائج ہے، اسے کاغذ کے نوٹ ڈالر کے نام سے چھاپنے کیلئے اُس پر کوئی بندش نہیں ہے۔ اِس ڈالر چھاپنے کی وجہ سے دُنیا چار طرح سے متاثر ہوئی اور خصوصاً ترقی پذیر ممالک اِس سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں اور امریکا کے زیادہ محتاج ہوگئے ہیں، کیونکہ ڈالر کی وقعت بڑھ گئی، اس سے ترقی پذیر ممالک کو قرضہ جات کی ادائیگی میں مزید دبایا اور ڈرایا جارہا ہے۔ ڈالر کی وقعت بڑھنے سے پوری فنانس مارکیٹ متاثر ہوئی، یعنی قرضہ جات زیادہ قیمت پر لئے جانے لگے، اسکی وجہ سے ڈالر ترقی یافتہ ممالک کو نہیں مل سکیں گے کیونکہ اُن کی قوت خرید میں کمی واقع ہوائے گی، جو اشیاء ڈالرز میں بکتی ہیں اُن کی پیداوار گھٹ جائے گی، جس سے ترقی پذیر ممالک کی آمدنی میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی ایکسپورٹ کم ہوجائیں گی اور قرضوں کی واپسی کی صلاحیت کم ہوجائے گی، ایسا ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ چوتھا قدم ایک محدود یا عالمی جنگ کا گردانا گیا کہ تینوں اقدامات مکمل ہوجائیں گے تو پھر ایک عالمی جنگ ناگزیر ہوجائے گی اور امریکا اپنی بالادستی بحال کر لے گا۔
پہلا مرحلہ برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنا مکمل ہوگیا جبکہ باقی تینوں اقدامات ساتھ ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں، ایشیائی اور افریقی ممالک کے باشندوں کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ کساد بازاری عروج پر ہے جبکہ جنگ کے بادل کئی جگہوں پر منڈلا رہے ہیں۔ اس میں یوکرائن سب سے زیادہ جنگ کے لئے گرم ہے۔ امریکا مسلسل یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ روس یوکرائن پر حملہ کرکے رہے گا، روس کو اشتعال دلانے اور یوکرائن کو محفوظ بنانے کے دکھاوے میں امریکا یوکرائن کو نیٹو کا ممبر بنا رہا ہے۔ یعنی نیٹو کی افواج اگر یوکرائن میں رہیں گی یا وہ نیٹو کا ممبر بن جاتا ہے تو پھر سارے نیٹو کے ممبران اِس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اگر ایک نیٹو ملک پر حملہ ہو تو سارے نیٹو ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ روس کے ایک سفیر کا کہنا ہے کہ امریکا اور نیٹو یوکرائن میں بیٹھ کر ماسکو پر حملہ کرنے کا وقت گھٹا رہے ہیں، یعنی اگر وہ یورپ کے کسی دور دراز کے ملک سے حملہ کریں تو اس میں اُسے دس پندرہ منٹ لگیں گے اور اس صورت میں ماسکو کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ جوابی حملہ کردے، اس پر روس چراغ پا ہے، وہ کہتا ہے کہ وہ ایسا ہونے نہیں دیں گے، اس سفیر نے یہ بھی کہا کہ امریکا کو کیسا لگے گا کہ اگر روس کیوبا اور ونیزویلا میں اپنے میزائل نصب کردے، دوسرے افغانستان سے شکست کے بعد امریکا نے روس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مزید روس کو دبانے کے لئے آگے نہیں بڑھے گا۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس میں 15 نئے ممالک نے جنم لیا مگر امریکا روس کو قابو کرنے اور بے بس کرنے کی ترکیبیں سوچتا رہا چنانچہ اس نے یوکرائن کو چنا، یوکرائن کی اور روس کی سرحد ایک ساتھ لگتی ہے، وہ مشرقی یورپ کا ایک ملک ہے، اس کی آبادی کوئی ساڑھے چار کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ سوویت یونین کے صدر خروشیف یوکرائنی تھے، یہ ملک معدنی دولت سے مالامال ہے اور یورینیم بھی اچھی خاصی مقدار میں پایا جاتا ہے، یوکرائن کی آبادی کا 19 فیصد روسی نژاد لوگ ہیں، جو ڈون باس کے صوبہ میں رہتے ہیں، وہاں بغاوت اور بے چینی بہت نمایاں ہے، اس وقت روس نے یوکرائن کی سرحد پر ایک لاکھ فوجی تعینات کردیئے ہیں، جوکہ جدید اسلحہ سے لیس ہے، روس کا تیل اور گیس کی پائپ لائن یوکرائن سے گزر کر یورپ جاتی ہے مگر یورپ نے تیل نہ خریدنے کا فیصلہ امریکا کے دباؤ میں کیا تو روس مشکل میں آ گیا کیونکہ اس کی 80 فیصد معیشت کا دارومدار تیل کی فروخت پر تھا۔ ایسے وقت میں چین روس کی مدد کو آیا اور اس نے روس سے تیل خرید کر اس کی معیشت کو تباہی سے بچایا۔ یوں تو آبنائے تائیوان بھی جنگ کے لئے کافی گرم ہے اور امریکا اپنی پالیسی کے تحت چین اور روس کو الگ الگ مصروف رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ دباؤ میں رہیں اور دونوں مل کر ایک محاذ پر نہ لڑ سکیں۔ تیسرا محاذ امریکا نے تبت کے محاذ کو بتایا ہے مگر انڈیا کی امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ امریکا نے چین پر دباؤ بڑھانے کے لئے ایک فوجی اتحاد قواد بنایا جس میں امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا شامل ہیں، پھر اس کے اس نے سفید فام فوجی اتحاد اوکوس کے نام سے بنایا جس میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا چین کے خلاف صف آرا نظر آئے مگر اس وقت سب سے گرم محاذ یوکرائن کا ہے۔ اس محاذ پر امریکا روس کو اشتعال دلا رہا ہے، اس کے جاسوسی طیارے جابجا روسی سرحد کے قریب چکر لگاتے رہتے ہیں، ایک بحری بیڑا بھی موجود ہے۔ امریکا یوکرائن سے اپنے شہری نکال رہا ہے، اُسے یقین ہوگیا ہے کہ وہ دُنیا کو یقین دلانا ہے کہ روس یوکرائن پر حملہ کرنے جارہا ہے۔ کشیدگی کم کرنے کے لئے روس، نیٹو اور امریکا اور یوکرائن کی ملاقات ہوئی مگر کشیدگی کم نہ ہوسکی، پھر روس یوکرائن کے مذاکرات ہوئے، اس سے بھی کشیدگی کم نہ ہوئی۔ اصل میں روس یہ سمجھتا ہے کہ امریکا روس کے خلاف سرگرم عمل رہتا ہے، اس لئے اس نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا اپنی سرد جنگ کے سارے ڈھانچے کو ختم کرے، جس میں نیٹو بھی شامل ہے، دباؤ بڑھانے کے لئے روس کے ملٹری آلات حرکت میں آگئے ہیں، خصوصاً روس مشرقی ڈسٹرک کی ملٹری مغرب کی طرف یوکرائن کی سرحد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اُس کے ہیلی کاپٹر وہاں پہنچ گئے ہیں اور مکمل جنگ کے لئے تیار ہیں۔ روس نے اس فوجی پیش رفت کو بیلاروس کے ساتھ ملٹری مشق کا نام دیا ہے جو 20 فروری 2022ء کو ہونے جارہی ہے۔ روس کی افواج کا اجتماع یوکرائن کے جنوبی اور مشرقی جنوبی سرحد زیادہ ہورہا ہے، امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ پیوٹن حتمی طور پر یوکرائن پر حملہ کرے گا اور امریکا، مغرب نیٹو کی طاقت کو آزمائش میں ضرورت ہے۔ اس معاملے میں روس کے آپشنز کیا ہیں، ایک تو یہ کہ وہ یوکرائن کی ملٹری صلاحیت کو منجمد کردے، اس طرح کہ وہ حکومت بے بس ہوجائے، ڈون باس پر قبضہ کرکے اُسے ایک نیا ملک بنا دے یا روس میں ضم کر لے، جس طرح اس نے جارجیا سے نکلنے والے علاقہ ابخارزیہ اور جنوبی اوٹسیٹیا کے معاملے میں کیا تھا، مگر پھر مغرب اور نیٹو اس معاملے میں مداخلت کریں گے یا پھر روس محدودجنگ کرے اور اس کے ذریعے ڈون باس جہاں روسی زیادہ تعداد میں آباد ہیں کو حاصل کرلے۔ اس صورت میں یوکرائن کی بندرگاہ ماریوپول پر قبضہ کرلے گا، جو آزوف سمندر پر واقع ہے اور خارکیف جوکہ یوکرائن کا اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل شہر ہے پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کریگا۔ اگر اس کو زیادہ بڑی جنگ کرنی پڑی تو وہ مشرق اور جنوب سے زمینی، سمندر اور فضائی حملہ کردے گا۔ایک اورطریقہ یہ ہے کہ وہ روس کو کریمیا سے ایک زمینی پل ملا لے، روس یہ بھی کرسکتا ہے کہ اوڈیسیا جوکہ یوکرائن کی سب سے اہم بندرگاہ ہے، اس پر قبضہ کرلے اور اپنی فورسز جوکہ ٹانس نیسٹیریا کی طرف بڑھے کہ جہاں روسی فوجیں پہلے ہی تعینات ہیں اور یہ حصہ مالودہ کا حصہ رہا ہے۔ یوں روس یوکرائن کو معاشی طور پر تباہ کردے گا۔ اس طرح وہ کریمیا کو پانی کی فراہمی کے مسئلے کو بھی حل کردے گا۔ تیسرا راستہ مکمل جنگ کا ہے جو دُنیا کی تباہی پر منتج ہوسکتا ہے اور عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ نصرت مرزا (ایڈیٹر انچیف)

مطلقہ خبریں