میر افسر امان
ہر سال جیسے جیسے 16 دسمبر قریب آتا ہے پاکستانی عوام میں پریشانی کی لہریں دوڑنی شروع ہوجاتی ہیں، کچھ کہتے ہیں ہمارے سیاستدانوں کا قصور تھا، کچھ کہتے ہیں فوج کا قصور تھا، کچھ اس کو بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہیں، یہ باتیں صحیح ہیں مگر اصل چیز کی طرف عوام کا دھیان نہیں جاتا یا عوام کا دھیان اس طرف جانے نہیں دیا جاتا، بات یہ ہے کہ برصغیر ہندوپاک پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی تھی، اس کے طول وعرض میں مسلمانوں کی آبادی تھی کہیں کم اور کہیں زیادہ، جو علاقے مسلمانوں کے سمندر کے ملحق تھے ان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی یعنی موجودہ پاکستان، اگر نقشے پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کے مغرب کی طرف براعظم افریقہ کے ملک مراکش اور مشرق کی طرف کاشغر تک مسلمانوں کی آبادی کا سمندر ہے جس کو فلسفی شاعر علامہ اقبال ؒ نے شعر کی زبان اس طرح بیان کیا تھا ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اسی ہی بات کو اپنی قوم اور لیڈرشپ کے سامنے بھارت کے لیڈر موہن داس کرشن چندگاندھی (مہاتما گاندھی) نے آزادی ہند کے موقع پر اس طرح رکھا تھا ”مجھے پاکستان کے وجود میں آنے سے زیادہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں پاکستان مسلمانوں کے سمندر سے نہ مل جائے“ انہوں نے اسی سمندر کا خطرہ محسوس کیا تھا جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ اسی لئے تقسیم کے وقت سے ہندو لیڈرشپ نے پاکستان کی راہ میں کانٹے بچھانے شروع کردیئے تھے، جس میں کشمیر اور دوسری ریاستوں پر جبری قبضہ اور اثاثوں کی منصفانہ تقسیم وغیرہ۔ اسی ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ روس کی مدد سے تعلقات قائم کئے اور سرحد کے سرخ پوش لیڈر (سرحدی گاندھی) کی حمایت سے پختونستان کا مسئلہ کھڑا کیا تھا جو افغانستان سے روسی فوجوں کی شکست اور واپسی تک برقرار تھا، اللہ بھلا کرے طالبان کہ انہوں پختونستان کے مسئلے کو دفن کردیا اور ہماری مغربی سرحد محفوظ ہوگئیں اور ہم نے جو ایک لاکھ سے زیادہ فوج مغربی سرحد پر لگا رکھی ہے وہ ہماری مشرقی سرحد پر تھی، اصل بات یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے، وہ اپنی عوام کو یہ سبق ازبر کراتا رہتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد نے باہر سے آکر ہمارے اُوپر حکومت کی اَب اکثریت کی وجہ سے ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم مسلمانوں پر حکومت کریں، اس نظریہ کے تحت یہ دو قوموں کی غلبہ پانے کی جنگ ہے جو شروع دن سے جاری ہے اس کے لئے تین جنگیں ہوچکی ہیں، بھارت اپنے مہاتما گاندھی کے ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے اکھنڈ بھارت پر کام کررہا ہے جس نے مشرقی پاکستان میں حقوق اور قومیت کا زہر گھول کر مکتی باہنی بنوائی اور اپنی فوجوں کو داخل کرکے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے کاٹ دیا اور بنگلہ دیش بنا دیا، اس کو اپنی طفیلی ریاست بھی بنا دیا، اس تاریخی موقع پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ میں نے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے اور دوقومی نظریہ کو بحرہند میں ڈبو دیا ہے۔ یہ خیال اسی ڈاکٹرائن کا پرتو ہے، جہاں تک مشرقی پاکستان میں ظلم کی داستانوں کا ذکر ہے تو جب اختلاف پیدا کر دیئے جاتے ہیں تو پھر ظلم جنم لیتا ہے جو ہمیں مشرقی پاکستان میں ظلم کی داستانوں کے طور پر نظر آتا ہے، جو کچھ ہونا تھا وہ ہوگیا اس پر آنسو بہانے کے بجائے اپنے دشمن کے پھیلائے ہوئے زہر کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ پاکستان مزید کسی حادثے سے دوچار نہ ہو۔ بھارت تو اب بھی جماعت اسلامی جو بنگلہ دیش کی مخالف اور متحدہ پاکستان کی حامی اور اس کی تنظیم البدر اور الشمس نے پاکستانی فوج کی مدد کی تھی بنگلہ دیش حکومت کے زیرعتاب ہے، اس کے لیڈر عبدالقادر ملا سمیت کئی کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا ہے اور باقی لیڈروں پر مقدمات چل رہے ہیں۔ المیہ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھتے ہوئے عوام میں موجود اختلافی معاملات کا ادراق کرنا چاہئے۔ قائداعظم ؒ بھی پہلے متحدہ ہندوستان کے قائل تھے، علامہ اقبال ؒ بھی سارے جہان سے اچھا ہندوستان ہمارا کہا کرتے تھے مگر ہندوؤں کی اکثریت اور حکمرانی کا خطرہ بھانپ لینے کے بعد اقبالؒ نے دوقومی نظریہ پیش کیا اور قائد ؒ نے اس کو حقیقت کا روپ دیا۔ اب پاکستان کی بقا اسی دوقومی نظریہ کو مضبوط سے مضبوط کرکے ہی قائم رہ سکتی ہے۔ حکمرانوں کا یہ کہنا کہ بھارت کا اور پاکستان کا کلچر ایک ہے، سرحدوں کو ختم ہونا چاہئے، یہ دوقومی نظریے کی نفی ہے، نوازشریف صاحب کا بھارت سے دوستی کو ہاتھ بڑھاتے وقت اس چیز کو مدنظر رکھنا چاہئے تھا، بھارت جو پاکستان، خصوصاً بلوچستان، خیبرپختونخوا اور کراچی میں مداخلت کررہا ہے اس سے کھل کر برابری کی سطح پر بات کرنی چاہئے، کشمیر کے مسئلے کے حل کے بغیر بار بار دوستی کی بھیک مانگنے سے عوام کے اندر مایوسی پھیل رہی ہے، ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہئے، معاشی حب کراچی میں ٹارگٹ آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے، اٹھارویں ترمیم کے ذریعے جو حقوق صوبے کو دیئے گئے ہیں اس پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہئے، ہمارے اِردگرد تمام ملکوں میں صوبے قائم ہیں صرف پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں صوبوں کا تناسب ٹھیک نہیں اس سے اختلاف جنم لے رہے ہیں اس لئے فوراً پاکستان میں جنرل ضیاالحق کے دور میں مولانا ظفر احمد انصاری کی صوبوں کے متعلق رپورٹ پر پارلیمنٹ میں بحث مباحثے کے بعد عمل کرنا چاہئے تاکہ بڑے صوبے اور چھوٹے صوبے کے حق مارنے کا جھگڑا ختم ہو۔ چین سے سبق حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس موقع پر ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب چین کے دوران جب ماؤزے تنگ سے ملنے گئے تو ان کی کرسی کے پیچھے لٹکے کوٹ پر پیوند لگے ہوئے دیکھے تو کہا! کیا بات ہے ایک عظیم قوم کے عظیم لیڈر کے کوٹ پر پیوند لگے ہوئے ہیں؟ اس پر ماؤزے تنگ نے کہا تھا کیا ”آپ کو اپنا دوسرا خلیفہ عمر ؓ یاد نہیں جس کے کپڑوں پر پیوند لگے ہوتے تھے“۔ حکومت کو امریکا سے امداد لینا بند کردینا چاہئے ورنہ وہ اپنی شرائط منوا کر اپنے عزائم جس میں پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات بین الاقوامی کنٹرول اور پاکستان کو بھارت کی تفیلی ریاست بنانا ہے سے پاکستان بچ جائے، اگر حکومت یہ کام کرلے تو مضبوط ہوگا اور دوبارہ مشرقی پاکستان جیسا واقعہ پیش نہیں آسکے گا، یہی تاریخ کا سبق ہے، یہی مشرقی پاکستان کے شہیدوں کو خراجِ تحسین ہے، اسی میں ہماری بقا ہے، اللہ ہمارے مثلِ مدینہ ملکِ پاکستان کا محافظ ہو آمین۔