Saturday, July 19, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افغانستان سے  امریکی افواج کے انخلا سے مشروط امن مذاکرات

کمال حسین

واشنگٹن کو جب 17 سال کی افغانستان میں جنگ لڑ کر یقین ہوگیا کہ وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتا تو اْس نے امن کی بات چیت زور وشور سے چھیڑ دی جس کے لئے مختلف فریقین کو آگے کیا جارہا ہے۔ 13 مارچ کو امریکی وزیردفاع جنرل جیمز میٹس کے امن کے بارے میں بیان میں کہا گیا کہ طالبان کے بعض دھڑے امن کے لئے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ بیان انہوں نے کابل کے غیراعلانیہ دورہ سے پہلے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ افغان صدر اشرف غنی کے مطابق ’’طالبان کی طرف سے اس امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ انہیں تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا ادراک ہے اور وہ پْرتشدد کارروائیوں کے اپنے مستقبل کے لئے مضمرات کے بارے میں گفت وشنید پر آمادہ لگتے ہیں‘‘۔ اب تصویر کا دوسرا رْخ دیکھتے ہیں، واشنگٹن طالبان سے براہ راست مذاکرات سے کیوں گریزاں ہے؟ طالبان سے مذاکرات امریکا اپنی شرائط کے تحت کیوں کرنا چاہتا ہے؟ پہلا کابل پراسیس اور پھر دوسرا کابل پراسیس کامیاب کیوں نہیں ہورہا؟ برسوں پْرانے مطالبات جو امن کی راہ میں رکاوٹ تھے، نہیں مانے جارہے تھے، اب کیوں مانے جارہے ہیں؟ کیپٹن ٹام گریسبیک کا یہ تسلیم کرنا کہ ’’جنگ صرف فوجی اقدامات سے نہیں جیتی جاسکتی طالبان مصالحت کرلیں‘‘ چہ معنی دارد؟ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن کو اْن کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا۔ خاتون ’’گیناہاسپل‘‘ کو سی آئی اے کی سربراہ کیوں مقرر کیا گیا؟ مائیک پومیو کا تقرر اور اس طرح کے بہت سے سوالات ٹرمپ انتظامیہ اور اشرف غنی انتظامیہ میں تبدیلی کی نئی لہر اور سوچ کے نئے زاویوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
کابل انتظامیہ ہو یا واشنگٹن انتظامیہ، بات ایک ہی ہے لیکن واشنگٹن فی الوقت کابل انتظامیہ کے کندھے پر بندوق رکھ کر استعمال کررہا ہے تاکہ کل کو یہ کہا جاسکے کہ طالبان اورکابل انتظامیہ میں امن معاہدہ ہوگیا ہے اور واشنگٹن انتظامیہ نے اسی لئے کابل میں مداخلت کی تھی لہٰذا یہ مشن مکمل ہوا اور امریکا کو باعزت واپسی کا موقع مل جائے گا، اس طرح جانے سے وہ جاتے ہوئے شکست کا داغ لے کر نہیں جائیں گے اور اپنے عوام کو بے وقوف بنائیں گے کہ ہم شکست خوردہ واپس نہیں آئے حالانکہ اصل حقائق ساری دْنیا جانتی ہے۔ سی آئی اے چیف اور وزیرخارجہ کی تبدیلی ٹرمپ مشینری کے اندر کے اختلافات کو واضح کررہی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں جو کچھ روزانہ ہورہا ہے یہ تبدیلیاں اور آنے والی تبدیلیاں اسی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ بظاہر مہذب لیکن حقیقتاً غیرمہذب قوم اب افغانستان میں اخلاقی برتری کے جواز ڈھونڈ رہی ہے اور اشرف غنی کٹھ پْتلی حکومت بطورِ ’’پپٹ‘‘ استعمال ہورہی ہے۔ تھامس رٹنگ اور جیلینا بجیلیکا نے ان اقدامات پر یوں تبصرہ کیا ہے ’’کابل یہ اقدام یکطرفہ طور پر اْٹھانے کی پیش کش واقعتاً کرسکتا ہے کیونکہ اس طرح اسے اخلاقی برتری حاصل ہوجائے گی‘‘۔
جنگ بندی میں پہل کون کرے گا؟ یہ عنوان ایک رپورٹ کا ہے جو ’’اے این این‘‘ یعنی ’’افغان اینالسٹ نیٹ ورک‘‘ نے حالیہ دنوں میں شائع کی ہے جس میں اشرف غنی کی امن مذاکرات کی پیشکش کی بہت تعریف کی گئی ہے اور اسے نائن الیون کے بعد سب سے بڑا قدم قرار دیا جارہا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ امریکا کی بالواسطہ مدد کا اہم قدم ہے جس میں غیرمحسوس طور پر یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ طالبان اب حملے بند کردیں جوکہ یقیناً طالبان کی طرف سے جنگ بندی میں پہل ہوگی جس سے امریکا یہ اخذ کرکے دْنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرے گا کہ طالبان نے ہتھیار ڈال دیئے۔ اے این این اپنی رپورٹ میں مزید لکھتا ہے کہ ’’امن کی اس تجویز کی سب سے حیران کْن بات یہ ہے کہ اس میں جنگ بندی پر گفت وشنید کرنے کا کہا گیا ہے اور جنگ بندی کے حوالے سے یہ بات واضح طور پر نہیں کہی گئی کہ اشرف غنی طالبان کی جانب سے پہلے قدم اْٹھانے کی توقع رکھتے ہیں یا کابل آگے چل کر کسی وقت جنگ بندی میں پہل کرے گا‘‘ اسی لئے رٹنگ اور جیلینا نے لکھا ہے کہ ’’یہ تجویز ہنوز امن کا منصوبہ نہیں‘‘۔28 فروری 2018ء بروز بدھ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منعقد ہونے والی 25 ملکوں اور تنظیموں کی کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے امن کے لئے مذاکرات کے اس منصوبے کو پیش کیا جسے ’’دوسرا کابل پروسیس‘‘ کا عنوان دیا گیا۔ اشرف غنی کے اس امن مذاکرات کی پیشکش میں کئی ایک معاہدے اور پیشکشیں شامل ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوجائے گا؟ یہی اصل سوال ہے جو مشکوک ہے۔ امن معاہدہ تو اس صورت میں قابلِ قبول ہوگا کہ امریکی افواج کا افغانستان سے فوری انخلاء سب سے پہلا نکتہ ٹھہرے اور طالبان کا بھی بڑا مطالبہ یہی ہے کہ امریکی فوج کا انخلا فوری ہو جبکہ دوسری طرف اشرف غنی اور امریکا کو بھی پتہ ہے کہ امریکا اور اتحادیوں کے نکل جانے کے بعد قبضہ پھر سے طالبان کا ہوجائے گا جوکہ اب بھی افغانستان کے 70 فیصد علاقے میں متحرک ہیں بلکہ ٹیکس بھی وصول کررہے ہیں تو بات پھر وہاں تک ہی آجاتی ہے کہ امریکا امن بھی اپنی شرائط کے تحت چاہتا ہے یعنی ’’ظلم رہے اور امن بھی ہو‘‘۔ اپنی طرف سے اشرف غنی نے ایک بڑا قدم اْٹھایا ہے بلکہ 28 فروری کو امن مذاکرات کی پیشکش کرنے کے فوراً بعد ایک بڑے نیوز چینل کی ’’کرسٹینا امان پور‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہا کہ ’’ہم امن کی ایک جامع ڈیل کی پیشکش کررہے ہیں تاکہ اسے مسترد نہ کیا جاسکے، اگر انہوں (طالبان) نے اسے ردّ کردیا تو اس کے نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے‘‘۔ اشرف غنی کن نتائج سے ڈرا رہے ہیں اْن سے جو وہ 70 سال سے بھگت رہے ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ اشرف غنی کے منہ میں زبان امریکی ہے یا بھارتی۔
امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والے یقیناً امریکی آشیرباد سے ہی امن مذاکرات کا راگ آلاپ رہے ہیں تو اگر امریکا کو امن ہی مقصود ہے تو اْس نے ابھی فروری میں مزید فوج کیوں بھیجی؟ اور پاکستان سے ڈومور ڈومور کی رٹ کیوں لگائی؟ بھارت کو افغانستان میں کردار سونپنے کی بات کیوں کی۔ یقیناً امریکا فوج کی ایک مخصوص تعداد اور فوجی اڈے افغانستان میں رکھ کر طالبان سے امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے، یعنی تلوار کی نوک پر امن مذاکرات اور یہ بات تو اب طے ہے کہ امریکا افغانستان سے کسی صورت نکلنا نہیں چاہتا، یہاں رہ کر وہ ایشیا کے لئے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرسکتا ہے اور ایشیا کو کْلی طور پر روس اور چین کے حوالے کر کے نہیں جانا چاہتا جبکہ افغانستان میں رہ کر وہ سی پیک سمیت پاکستان، ایران، چین، شاہراہ ریشم پر نظر رکھ سکتا ہے۔ یہاں سے نکل کر اْس کی عالمی تھانیداری متاثر ہوتی ہے، اْس کے عالمی کردار پر اْنگلی اْٹھتی ہے اور افغان جنگ میں شکست کا داغ الگ سے اْس کے ماتھے کا جھومر بنتا ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ طالبان اس لنگڑے امن مذاکرات کو قبول کریں گے۔ 25 ملکوں کی اس کانفرنس میں شرکاء نے دو سال پہلے افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کی قیادت میں افغان حکومت کی مخالفت میں سرگرم حزب اسلامی کے درمیان ہونے والے ایک ایسے ہی معاہدے کا حوالہ دیا اور طالبان پر زور دیا کہ وہ متحدہ قومی حکومت کے ساتھ سیاسی عمل میں شریک ہوں لیکن گلبدین حکمت یار کے وقت حالات کا دھارا ذرا مختلف تھا جبکہ اب حالات کا رْخ کچھ اور ہے اور اس سال افغانستان میں انتخابات بھی ہونے جارہے ہیں جبکہ یہی عمل پاکستان میں بھی دْہرایا جائے گا۔ پاکستان اور خصوصاً افغانستان کے انتخابات میں امریکی اثرونفوذ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، کوشش کی جائے گی کہ پاکستان میں ایسی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جو امریکی ڈومور کا مطالبہ پورا کرسکے اور افغانستان میں ایسی حکومت کا قیام جو طالبان سے مفاہمت کر کے امریکی اڈوں اور محدود فوج سمیت طالبان کو راضی کرسکے کیونکہ افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ترجمان جاوید فیصل نے ایشیا ٹائمز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’’غیرملکی فوجیوں کی کثیر تعداد پہلے ہی ملک سے جا چکی ہے اور جو غیرملکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں، وہ افغان فوج کی استعداد بڑھانے کی غرض سے ہیں۔ چاہے جنگ ہو یا نہ ہو، طالبان شورش ہو یا نہ ہو، ایک بھی گولی فائر نہ ہو تب بھی ہمیں اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اپنی فوج کو تربیت دینے کی ضرورت ہے‘‘۔
یعنی موجودہ افغان حکومت سو فیصد اس حق میں ہے کہ امریکی اپنے فوجی اڈوں سمیت یہاں قیام کریں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو امریکی 17 سال تک یا 1979ء سے اب تک پینتیس، چالیس سال میں افغان فوج کی تربیت مکمل نہ کرسکے، اْن سے تربیت لینے کا کیا فائدہ؟ درحقیقت یہ تربیت نہیں بلکہ ’’ترغیب‘‘ ہے کہ امریکی فوجی کسی نہ کسی بہانے افغانستان میں رہیں جبکہ امریکی فوج کا قیام کسی صورت پاکستان اور ایشیا کے حق میں نہیں۔ جبرواستبداد، مکاری اور عیاری کی جس شکل کو امریکی اپنا کر جس راستے پر گامزن ہیں وہ سراسر ایشیا اور خصوصاً پاکستان کے خلاف ہے۔ اسٹیوکول کی لکھی ہوئی کتاب جلد ہی مارکیٹ کی زینت بننے والی ہے۔ اس کتاب میں امریکی شکست کی تمام ذمہ داری پاکستان پر ڈالی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں آئی ایس آئی کو افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان ایک خانہ جنگی میں مبتلا ملک ہے جہاں مختلف دھڑے اور منظم گروپ موجود ہیں جو اپنے اپنے مفادات سے وابستہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔
اسی طرح سے مغربی ممالک اور کچھ ایشیائی ممالک بھی اپنے اپنے مفادات رکھتے ہیں مثلاً مشرقی علاقوں کے طالبان دھڑے چین کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے کیونکہ مشرقی علاقوں میں تیل اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں اور چین اس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ فرانس اور جرمنی کے ساتھ شمالی اتحاد کے پْرانے مراسم ہیں جن کو یہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ روس اپنے مطلب کے لئے افغانستان سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ امریکا کی ضد میں یہاں اسلحہ بھی سپلائی کررہا ہے۔ ہرات اور جنوب مغربی افغانستان میں طالبان کو ایران کی حمایت حاصل ہے جبکہ پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کہ کہیں یہ جنگ پاکستان میں منتقل نہ ہوجائے لہٰذا امن مذاکرات کے لئے ان تمام طالبان دھڑوں کو رابطے میں لانا ہوگا جس میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی ابھی تک کامیاب نظر نہیں آتے۔ زبانی امن مذاکرات کی دعوت کچھ اور چیز ہے جبکہ افغانستان کے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر امن کے لئے کوششیں کرنا کچھ اور چیز ہے۔ اگر اشرف غنی امریکی فوج کو اڈے دے کر یہاں رکھ کر امن کی آشا رکھتا ہے تو یہ خام خیالی ہے کیونکہ قطر میں قائم افغان طالبان کے سرکاری دفتر سے طالبان کے جاری کردہ بیان کے مطابق ’’ہمارا (طالبان) مذاکرات میں شریک ہونا تمام امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا‘‘۔

مطلقہ خبریں