مقبول احمد قریشی ایڈووکیٹ
امریکہ کی مسلح افواج کے عرصہ زائد از 17 سال اور 6 ماہ کے بعد افغانستان سے واپس جانے کے اعلانات اور اقدامات کئے جارہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تیسرے امریکی سربراہ حکومت ہیں جو اپنے سابقہ ہم منصب اور مقتدر حکمرانوں کی بھڑکائی، لگائی اور جاری رکھی گئی آگ اور خون ریزی سے عاجز آکر بہادر جوان ہمت اور جفاکش لوگوں اور جنگجوؤں کی سرزمین سے رخصت ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔ امریکی حکومت کے نمائندے گزشتہ چند سال سے افغان طالبان کے ساتھ تگ و دو کرتے چلے آرہے ہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل دوحہ میں فریقین کے مابین، قدرے طویل دورانیے کی باہمی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اگر امریکہ بہادر کے حکمرانوں نے واقعی افغانستان سے اب کوچ کی پالیسی طے کرلی ہے تو پھر گردونواح بلکہ جنوبی ایشیا کے مستقبل قریب کے حالات بھی قدرے تبدیل ہوسکتے ہیں۔ بھارت نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنے قونصل خانے بنا رکھے ہیں اور امریکی حکومت کی حمایت سے بھارت نے وہاں اربوں روپے کے مالیتی تعمیری منصوبے بھی جاری کر رکھے ہیں۔ کیا امریکی افواج کی وہاں سے روانگی پر ان کا تسلسل کسی طرح متاثر ہوسکتا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ جنوبی ایشیا میں قیام اور استحکام امن کے لئے اپنی موثر کارکردگی جاری رکھے گا؟ اگر افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے بھارت ابھی تک، وہاں سے اپنی اقتصادی امداد کے ذریعے سیاسی اور دفاعی نوعیت کی مداخلت سے باز نہ آیا تو پاکستان کی مشترکہ سرحد کے دونوں پار دہشت گردی کے واقعات گاہے بگاہے وقوع پذیر ہوتے رہنے کے آئندہ بھی امکانات ہیں۔ اس طرح پاکستان میں امن و سکون کے قیام کی ذمہ داری بلاشبہ بھارت پر، خاصی حد تک عائد رہ سکتی ہے۔ یوں بھارتی حکمرانوں کو پاکستان میں دہشت گردی کے سابقہ بلکہ تاحال منفی اور تخریبی وارداتوں کے روایتی ارتکاب سے باز رہنا ہوگا، تاکہ پاکستان میں عوام کی قیمتی جانوں اور املاک کو سنگین خطرات یا خدشات سے نجات مل سکے۔ بھارت کے انتخابات مئی 2019ء کے وسط تک مکمل ہونے کے امکانات ہیں۔ اس لئے آئندہ بھارتی سیاسی قیادت کو اپنی سابقہ منفی عادات اور روایات کو ترک کرکے جنوبی ایشیا کے عوام کی فلاح و بہبود کے مثبت انداز فکر و عمل کی راہ پر گامزن ہونے پر خلوص نیت سے آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت بے شک ایک بڑا ملک ہے اس کی آبادی ایک ارب 30 کروڑ افراد تک پہنچ گئی ہے۔ تنازعہ جموں و کشمیر پر بھارتی حکمرانوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے اب مائل و راغب ہوجانے میں مزید تاخیر، تساہل اور ہٹ دھرمی سے اجتناب کرنے کو ترجیح دینا ہوگی۔ یاد رہے کہ امریکی، یورپی اور دیگر خطہ ہائے ارض، اپنے علاقوں میں طویل امن سے کافی ترقی کر گئے ہیں، اس لئے بھارتی حکمرانوں کو اپنی سابقہ منفی پالیسیوں کو اگرچہ خوشدلی سے نہیں تو حالات کے تقاضوں کے تحت اپنے ملک کے اکثر غریب، بیمار، بھوکے، فاقہ کش، مجبور اور پسماندہ لوگوں کی حالت زار کو دیکھ کر ہی مثبت طرزعمل اختیار کرنے کا راستہ اولین ترجیح بنانا ضروری ہوگیا ہے۔ ایسی عملی کارکردگی کا مظاہرہ جنوبی ایشیا کے دیگر اہم ممالک میں بھی تازہ حالات میں نظر آنا چاہئے۔ امریکہ بہادر نے بھارت کی پاکستان کے ساتھ روایتی ناراضگی، مخالفت اور مسلم دشمنی پر مبنی پالیسی کی بنا پر افغانستان کے لاکھوں بے قصور اور بہادر عوام کو شب و روز کی مسلسل سالوں کی بمباری اور گولہ باری سے قتل عام کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ادھر بھارت نے بھی امریکی جارحیت کی حمایت کرکے افغانستان کے لوگوں کو پاکستان کے خلاف مشتعل کرکے باہمی سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کو مسلسل بڑھایا اور تاحال جاری رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ ایک تازہ اطلاع کے مطابق اب امریکہ اپنا 30 فیصد اسلحہ دبئی کے راستے واپس لے جا رہا ہے جبکہ بقیہ 70 فیصد سامانِ حرب براستہ کراچی، یورپ اور امریکہ منتقل کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ بہادر نے لاکھوں افغان عوام کو بلا کسی قصور، جرم اور قانونی جواز کے قتل، شدید زخمی، معذور، بے گھر اور بے سروسامان کیا ہے، اس لئے امریکہ بہادر متاثرین افغان لوگوں کے لواحقین کو مناسب مالی معاوضہ ادا کرے اور ان کی اجتماعی اور ذاتی املاک کے نقصانات کا بھی ازالہ کرے جبکہ پاکستان کو بھی ایک لاکھ افراد کے علاوہ 100 ارب ڈالر سے بھی زائد نقصان ہوا ہے۔ لہٰذا امریکہ بہادر حکومت پاکستان کو بھی یہ رقم ادا کرے۔ نیز افغانستان میں استعمال شدہ اسلحہ کی تعداد کا بیشتر حصہ بھی امریکہ پاکستان کے حوالے کرکے یہاں سے رخصت ہو۔