Saturday, July 19, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

افسانہ

سیدھا راستہ
مسرت واحد خان

عارف ندی کے کنارے بیٹھا خلاؤں میں گھور رہا تھا آج پھر وہ بہت اْداس تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ آج پھر حسب معمول جو اس نے جو نوکری کے لئے انٹرویو دیا تھا اس میں ریجیکٹ کردیا گیا تھا حالانکہ اسے بڑی امید وابستہ تھی لیکن اس کی امیدیں اس وقت خاک میں مل گئیں جب اس سے کم پڑھے لکھے لڑکے کو سلیکٹ کرلیا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس بہت بڑے آدمی کی سفارش نہیں تھی جب سے وہ نوکری کی تلاش میں سرگراں ہوا تھا یہی دیکھتا آرہا تھا کبھی سفارش کامیاب ہوجاتی تو کبھی پیسہ کام دکھا جاتا، بدقسمتی سے یہ دونوں چیزیں اس کے پاس نہیں تھیں کیونکہ وہ غریب کا بیٹا تھا جس نے محنت مزدوری کرکے اسے پالا پوسا تھا، وہ ایک ذہین نوجوان تھا تعلیمی میدان میں اس نے ایم اے تک معیاری پوزیشن لی تھی، اپنے تعلیمی معیار کی پوسٹ کے لئے وہ نوکری کی درخواست دیتا تو اس کے بوسیدہ لباس کو دیکھ کر ہی افسران ٹال دیتے، ڈگریاں دیکھنے کی تو نوبت ہی نہ آتی اور جب کسی چھوٹی پوسٹ کے لئے اپلائی کرتا تو افسران اس کی تعلیمی قابلیت کو دیکھ کر اس سے معذرت کر لیتے کہ تمہاری تعلیم اس پوسٹ کی نسبت زیادہ ہے تو صرف ایف اے پاس نوجوان کی پوسٹ ہے، ان حالات کی وجہ سے وہ مایوس ہوگیا تھا، بوڑھی ماں محنت مزدوری کرکے اس کا پیٹ پال رہی تھی لیکن اب وہ بیمار ہوگئی تھی، دوا دارو تو ایک طرف اب تو کھانے کے لئے پیسے بھی نہیں تھے، نوبت فاقوں تک آپہنچی، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے، انہی سوچوں میں غرق تھا کہ فضل بھائی کی آواز سن کر وہ چونکا جو اس سے اس کا حال احوال پوچھ رہا تھا، ٹھیک ہوں فضل بھائی اس نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا تم آج اتنے اداس کیوں ہو، فضل بھائی نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں فضل بھائی نوکری کی تلاش میں ہوں لیکن نوکری ملتی نہیں، اب تو یہ حالت ہے کہ گھر میں فاقوں تک کی نوبت آپہنچی ہے، اماں علیحدہ بیمار پڑی ہے، اتنے پیسے نہیں کہ ان کی دوا لا سکوں، اس نے غمگین لہجے میں کہا۔۔۔۔ اچھا تو یہ بات ہے، فضل بھائی نے کہا پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا یار عارف ایک بات کروں بُرا تو نہیں مانو گے، بولو فضل بھائی یار یہ کام تو تمہارے معیار سے بہت چھوٹا لیکن گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ تمہیں اب کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے، یوں کرو کل تم میرے ساتھ چلو میں جہاں مزدوری کرتا ہوں وہیں تمہیں کام دلا دوں گا، یہ سن کر عارف کا دماغ غصے سے جھنجھلا اٹھا کہ فضل بھائی اسے کمتر کام کے بارے میں کہے گا جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، وہ جو اتنا پڑھا لکھا ہوا اتنا چھوٹا کام کرے گا، فضل بھائی مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھیں کہ آپ نے مجھے اتنا کمتر سمجھا، وہ غصے سے بولا، یار عارف میں نے ایسی بھی کیا غلط بات کہہ دی جو تمہیں اتنا غصہ آگیا، محنت مزدوری کرنا بُرا کام نہیں ہے تم ایک پڑھے لکھے نوجوان ہو جب تک تمہیں کہیں کوئی اچھا سا روزگار میسر نہیں آتا تو گھر چلانے کے لئے کیا بُرا ہے، اپنے ہاتھوں سے کما کر اپنا کام چلاؤ آخر تمہاری ماں نے بھی تو تمہیں محنت مزدوری کرکے پالا ہے، میری بات پر غور کروں دل کرے تو کل آجانا میں تمہیں ٹھیکیدار سے کل مزدوری دلواں دوں گا۔ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے پتہ نہیں یہ آج کل کہ نوجوان پڑھ لکھ کر افسروں سے کم کے خواب ہی نہیں دیکھتے، وہ بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے، عارف بھی اْٹھ کر گھر آگیا۔ ماں بستر پر پڑی کرا رہی تھی بیٹے کی اداس شکل دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ نوکری نہیں ملی لیکن منہ سے کچھ نہیں بولی، عارف نے باورچی خانے کی طرف دیکھا چولہا ٹھنڈا پڑا تھا، پانی کا گلاس پی کر وہ چارپائی پر لیٹ گیا، فضل بھائی کی تجویز پر غور کرنے لگا پہلے جو بات سن کر اس کا دماغ غصے میں تپ گیا تھا اب وہ ٹھنڈا ہوگیا تھا، فضل بھائی کی بات اب اسے کچھ معقول سی لگنے لگی تھی کہ گھر چلانے کے لئے جب تک کوئی نوکری میسر نہیں آتی محنت مزدوری کرنے میں کوئی حرج نہیں، یہی سوچ کر وہ سو گیا۔ صبح سویرے وہ بستر سے اٹھ کر کھڑا ہوا اماں نے اسے اتنی جلدی سے اٹھتا دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا کیا بات ہے بیٹا۔ آج اتنے جلدی کیسے جاگ گئے۔ اماں فضل بھائی کے ساتھ جارہا ہوں وہ بولا کہاں؟ ماں نے سوالیہ انداز میں پوچھا مزدوری کرنے۔ کیا؟ ماں غصے میں بستر سے اٹھ بیٹھی اس دن کے لئے میں نے تمہیں پڑھایا تھا کہ تو مزدوری کرے گا میں نے کیا کیا خواب دیکھے تھے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر افسر بنے گا تو میرے دکھی دن ٹل جائیں گے، وہ روتے ہوئے بولی۔ ایک تو تم مائیں کیوں اپنے بچوں کے ذہنوں میں بچپن ہی سے افسر بننے کے خواب ڈال دیتی ہو اور جب اس کی تعبیر نہیں ملتی تو خود بھی مایوس ہوتی ہو اور ہمیں بھی مایوس کرتی ہو، ٹھیک ہے تم نے مجھے پڑھایا لکھایا مجھے شعور ملا لیکن بتائیں میں کہاں سے لاؤں سفارش پیسہ جو مجھے افسری ملے اور آپ کے خواب پورے ہوں، میں افسری کے انتظار میں فاقے کروں، یہ مجھے گوارہ نہیں میں مزدوری کرنے ضرور جاؤں گا، اپنی طاقت اور محنت سے اپنی راہیں خود متعین کروں گا، وہ پُرعزم لہجے میں بولا اور گھر سے نکل کھڑا ہوا، گھر کی گاڑی گھسیٹنے لگی ماں نے بھی رو پیٹ کر صبر کرلیا، لوگوں نے شروع شروع طرح طرح کی باتیں کیں اتنا پڑھا لکھا ہو کر مزدوری کررہا ہے، کسی نے افسوس کیا کسی نے طنز مارا کہ کیا ضرورت تھی پڑھنے لکھنے کی، اس نے ہر بات کو برداشت کیا لیکن مزدوری کرتا رہا، اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کچھ وہ گھر کا خرچ چلاتا اور کچھ وہ بچا لیتا، اس طرح دن گزرتے گئے ایک دن وہ اپنے کام میں مگن تھا کہ اسے جانی پہچانی آواز سنائی دی، اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے انور کھڑا تھا جو حیرانگی سے اسے دیکھ رہا تھا، یار مجھے یقین نہیں آتا عارف یہ تم ہو تو پھر پڑھنے کی کیا ضرورت تھی، عارف بولا کمال ہے یار مجھے معلوم ہے تم درخواستیں لے کر جگہ جگہ نوکری ڈھونڈنے کے لئے گئے ہو گے، اب یار یہ طریقہ پرانا ہوچکا ہے، وہ طنزیہ لہجے میں بولا میرے پاس رقم اور سفارش تو تھی نہیں جو نیا طریقہ اختیار کرتا، عارف نے کہا مجھے دیکھو میں بھی تمہاری طرح ایک غریب لڑکا تھا میں بھی نوکری ڈھونڈنے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن نوکری نہیں ملی تو میں مایوس ہوگیا، میں نے اپنی مایوسی کا بدلہ اس معاشرے سے اس طرح لیا تم سنو گے تو حیران رہ جاؤ گے، خیر ان باتوں کو چھوڑو آؤ کسی اچھی جگہ چل کے چائے پیتے ہیں، وہ دونوں ایک ہوٹل میں جا بیٹھے، یار تمہارے بڑے ٹھاٹ ہیں، انور کے اعلیٰ قسم کے کپڑے اور چمکتی موٹرسائیکل دیکھ کر عارف بولا، اب یہی ٹھاٹ میرے دوست میں تمہیں کروانا چاہتا ہوں، انور نے کہا بس تم کل تیار رہنا میں تمہیں اپنے باس سے ملواؤں گا اور اس کے بعد عیش ہی عیش ہوں گے، چائے پی کر انور چلا گیا اور عارف اپنے کام پہ واپس آگیا، دوسرے روز انور صبح عارف کے گھر آگیا اور عارف کو لے کر اپنے باس کے پاس گیا، وہ ایک بڑی کوٹھی تھی اس کے ایک خوبصورت کمرے میں انور عارف کو لے گیا وہاں ایک آرام دہ کرسی پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، انور نے عارف کا تعارف اس سے کروایا کہ باس یہی آدمی ہے جس کا میں نے کل ذکر کیا تھا، باس نے عارف کو اوپر سے نیچے تک گھورا اور پھر انور سے مخاطب ہوا کہ اس کو کام کے بارے میں بتا دیں، سر آپ فکر ہی نہ کریں کام تو اسے میں ایک منٹ میں سمجھا دوں گا تو پھر ٹھیک ہے کارکردگی جتنی تیز ہوگی تنخواہ اس حساب سے بڑھائی جائے گی، کیوں نوجوان تمہیں منظور ہے؟ باس عارف سے مخاطب ہوا عارف ابھی تک شش و پنج میں مبتلا تھا، مجھے کام کے بارے میں بتائیں سر، وہ تجسس کے مارے بولا، انور تمہیں سب کام سمجھا دے گا، اب تم لوگ جاسکتے ہو، باس نے کہا تو انور اور عارف باہر نکل آئے، باہر نکلتے ہی عارف نے پھر انور سے کام کے متعلق پوچھا….. یار مرے کیوں جا رہے ہو کام بھی تمہیں بتاتا ہوں فی الحال نوکری مبارک ہو، یار انور میں نے ایک سے ایک دفتر کی خاک چھانی ہے لیکن کسی نے مجھے گھاس تک نہیں ڈالی اب یہاں پر بغیر ڈگریوں کو دیکھے مجھے نوکری مل گئی۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا، عارف بولا جب قسمت جاگ اٹھے تو پھر سب کچھ خودبخود ہوجاتا ہے، اب تم پرانے دن بھول جاؤ عیش کرنے کے دن آگئے ہیں۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا کہ تم کیا کہہ رہے ہو، مجھے جلدی سے کام کے بارے میں بتاؤ، عارف بولا تمہیں بہت جلدی ہے تو سنو ہمارا ادارہ موٹی اسامیوں کو اغوا کرتا ہے اور ان سے تاوان وصول کرکے چھوڑ دیتا ہے، اس میں تمہارا یہ کام ہوگا کہ تم پورے شہر کا سروے کرو گے اور مالدار آسامیوں کا پتہ چلاؤ گے اور باس کو اس کی رپورٹ دو گے اس کے بعد تمہارا کام ختم اور پھر اگلے مرحلے میں یہ کام اوروں کے سپرد کیا جائے گا، دیکھو کتنا آسان کام ہے، انور بولا لیکن عارف کام کے بارے میں سن کر غصے سے بھڑک اٹھا، انور تم مجھے اس نیچ کام کرانے کی بجائے سرعام بے عزتی کردیتے تو مجھے گوارہ تھا لیکن تم نے مجھے ضمیر فروش کیوں سمجھ لیا تھا، میں معاشرے کا ستایا ہوا ضرور ہوں لیکن اتنا بھی نہیں گر گیا کہ یہ گھٹیا کام کروں گا، عارف غصے سے بولتا گیا، یار تم اس قدر ناراض کیوں ہورہے ہو۔ کیا دیا تمہیں اس معاشرے نے، تمہاری ماں نے تمہیں محنت مزدوری کرکے پڑھایا لکھایا اس کے لئے تم بھی مزدوری کرو گے، وہ گھٹیا کام ہے یا ہمارا؟ انور تیزی سے بولا، انور تم انسانوں کے سودے کرتے ہو، ملک میں بے سکونی پھیلاتے ہو، اس ملک کے غدار ہو، تمہیں تو سرعام گولی مار دینی چاہئے، میں اپنے ملک کا معمار ہوں، اپنے ہاتھوں سے اس دھرتی کی خدمت کروں گا، اپنی محنت کی کمائی سے قطرہ قطرہ جمع کرکے دریا بناؤں گا۔ تم ایک دن دیکھ لینا دیر ضرور ہے اندھیرا نہیں ہے، خدا حافظ انور یہ کہہ کر عارف اس بلڈنگ کی طرف چلا گیا جہاں مزدوری کرتا تھا۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل