شہید ہونے والوں میں بچے، بزرگ اور خواتین بھی شامل، سینکڑوں زخمی و معذور بھی ہوئے، گھروں پر قبضے سمیت مسجد اقصیٰ پر حملے کے درجنوں واقعات ہوئے، تین ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کو جیل میں ٹھونسا گیا
نذرالاسلام چوہدری
اسرائیلی افواج نے گزشتہ برس ٹارگٹ کلنگ، میزائل حملوں اور فضائی بمباری میں 357 فلسطینی قتل کئے۔ شہدا میں خواتین، بزرگ اور بچے بھی شامل ہیں جبکہ سینکڑوں فلسطینی شدید زخمی و معذور بھی ہوئے۔ بیت المقدس میں کارگزار رفاہی تنظیم اور فلسطینی قومی سوسائٹی کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں کے گھروں پر قبضے سمیت مسجد اقصیٰ پر درجنوں بار حملے کئے۔ اس دوران تین ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ کئی علاقوں میں کم و بیش ایک ہزار فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا۔ ان کی زمینوں پر قبضے کئے گئے جس کے نتیجے میں 432 فلسطینی خاندان بے گھر ہوگئے اور شدید سردی میں کھلے آسامان تلے موجود ہیں۔ دوسری اسرائیلی جیل میں قید فلسطینی قیدیوں نے مشترکہ فیصلہ کے تحت تمام اسرائیلی عدالتوں کا بائیکاٹ کردیا ہے اور کسی بھی عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا ہے جبکہ اسرائیلی زندانوں میں جرم بے گناہی میں مقید کئی فلسطینی قیدیوں نے بھوک ہڑتال بھی شروع کردی ہے۔ قومی سوسائٹی برائے شہدائے فلسطین نے انکشاف کیا ہے کہ یکم جنوری 2021ء سے 31 دسبر 2021ء تک 357 فلسطینی مرد و خواتین اور بچوں کو شہید کیا گیا۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ 2021ء کے صرف ایک برس میں فلسطین میں شہید کی جانے والی خواتین کی تعداد 69 جبکہ شہید فلسطینی اطفال کی تعداد 80 تھی۔ 2021ء میں شہید ہونے والی فلسطینی خواتین کی یہ تعداد 1948ء میں ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کی برطانوی سازش کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔ قومی فلسطینی سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل صبیحات نے کہا ہے کہ 2021ء کے فلسطینی شہیدوں کے اس قافلہ میں 22 فیصد شہید اطفال ہیں۔ ”فلسطین کروٹیکل“ نے بتایا ہے کہ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں غزہ کی پٹی میں شہیدوں کی تعداد 257 اور غرب اردن کے قصبات میں 100 تھی۔ 2021ء میں اسرائیلی آبادگاروں کو بسانے کے لئے اسرائیلی افواج اور قابض یہودی ملیشیاؤں نے ایک ہزار سے زائد فلسطینی خاندانوں کو ان کی زمینوں، گھروں اور باغات و کھلیانوں سے بے دخل کردیا۔ ایک برس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی مسلح آبادگاروں کی جانب سے فلسطینی کسانوں پر تشدد، فائرنگ اور انہیں کار سے کچلنے کی 336 وارداتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ ویسٹ بینک کے مکین حمزہ محفوظ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری اور مکینوں کی بے دخلی سمیت امریکا و عالمی برادری کی بے شرمی گزشتہ پانچ سال یعنی 2016ء کے بعد کی بلند ترین سطح پر رہی۔ ”بیت سلیم“ نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومتی ادارے اور اہلکار فوری بلادھڑک فائر کھولنے کا دفاع کرتے ہیں، حالانکہ دُنیا کا کوئی قانون اس کی اجاز نہیں دیتا کہ سویلینز پر فائر کھولا جائے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی قبضہ 100 فیصد جارحیت ہے جس میں اسرائیلی عدلیہ بھی شامل و شریک ہے، کیونکہ جب کوئی فلسطینی اپنے گھر، باغات اور زمینوں پر یہودی قبضہ کی شکایات لے کر اسرائیلی عدالتوں میں جاتا ہے تو انہیں ٹرخا دیا جاتا ہے۔ فلسطینی صحافی الحضری کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کا ظلم ہے کہ وہ عمارات کے اجازت ناموں کی عدم موجودگی کا بہانہ بنا کر فلسطینیوں کے مکانات مسمار اور زمینیں قبضہ کرتا ہے۔ حالانکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا کہہ چکی ہیں کہ فلسطینیوں کی جائیدادوں کے لئے اسرائیلی اجازت نامے حاصل کرنا ناممکن ہے، چاہے یہ تعمیرات ان کی ذاتی ملکیت میں موجود زمین پر ہی کیوں نہ کی گئی ہوں۔ اسرائیلی حکومت کا یہ قانون اصل میں فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور علاقوں سے کھدیڑنے اور یہاں یہودی تعمیرات اور بستیاں بسانے کی کوشش ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی آبادی کو گھٹانے اور یہودیوں کی مردم شمار کو بڑھانا چاہتا ہے۔