”وکھری ٹائپ“ کے آدمی اور فنکار جو رائٹر کے اسکرپٹ میں اپنا رنگ بھرنا جانتے تھے
طاہر سرور میر
سہیل اصغر کی آواز میں موت کی آہٹ سنائی دے رہی تھی، انہوں نے سرائیکی لہجے میں کہا ”یار کہندے نیں بیمار نوں بیمار دی دعا لگدی اے، میں بیمار ہاں تینوں دعا دینا ہاں کہ پروردگار تینوں مکمل صحت یاب فرمائے۔“
(کہتے ہیں بیمار کو بیمار کی دعا لگتی ہے، میں بیمار ہوں تمہیں دعا دیتا ہوں کہ پروردگار تمہیں صحت کاملہ عطا فرمائے)۔
یہ تھے وہ آخری الفاظ جو سہیل اصغر نے دنیا سے جاتے ہوئے اپنے جونیئر فنکار نورالحسن کو وٹس ایپ پر کہے تھے۔
سہیل اصغر کو جگر کا کینسر تھا اور گزشتہ سال ان کے معدے کی سرجری بھی ہوئی تھی۔ قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ ان کا مرض جان لیوا تھا لیکن انہوں نے قریبی دوست اداکار عابد علی کی موت کے بعد زندہ رہنے کی امید ختم کردی تھی۔ اداکار عابد علی بھی سنہ 2019 میں جگر کے کینسر کے باعث اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ عابد علی پاکستان میں ”منی اسکرین“ کے پہلے سپراسٹار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ سہیل اصغر یوں تو عابد علی کے جونیئر تھے لیکن ان کے فن کی پختگی، برجستگی اور تنوع نے عابد علی کے دل میں ان کے لئے بہت پیار اور احترام بھر دیا تھا۔
سہیل اصغر 15جون 1954ء میں ملتان میں پیدا ہوئے، سہیل اصغر کہا کرتے تھے کہ وہ نہیں بتا سکتے کہ انہیں اداکاری کا شوق کیسے ہوا، لیکن انہیں اتنا یاد ہے کہ وہ بہت چھوٹی عمر میں ہی دلیپ کمار، بلراج ساہنی اور اجمل خان جیسے عظیم فنکاروں سے متاثر تھے۔ ہیر رانجھا میں کیدو کا کردار ادا کرنے والے سینئر اداکار اجمل خان کا سہیل اصغر کی زندگی بدلنے میں اہم کردار تھا۔ یہ قصہ سہیل اصغر یوں سنایا کرتے تھے کہ جب وہ اپنے شہر ملتان کے بعد لاہور منتقل ہوئے تو روزانہ لاہور ریڈیو کا چکر لگانا ان کا معمول تھا۔ ایک دن جب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ کبھی بھی فنکار نہیں بن پائیں گے کیونکہ ان کی کوئی سفارش نہیں ہے، کوئی پری پیکر ٹائپ کی شخصیت ان کی سرپرستی نہیں کررہی، تو انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اب فنکار بننے کا خیال دل سے نکال دیں گے۔ سہیل اصغر بتاتے ہیں کہ ان کے دل میں ”سرنڈر“ کرنے کا خیال آیا اور وہ لاہور ریڈیو کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کر باہر نکلنے لگے تو کسی شخص نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ”وہ ایک نحیف بوڑھا تھا لیکن اس کی آواز یوں گرج دار تھی جیسے وہ کوئی بہت بڑا فاتح ہو، وہ تفاخرانہ احساس سے لبریز تھا مگر عاجزی کا بھی پیکر تھا۔“ چند ساعتوں میں سہیل اصغر نے اس بوڑھے مہربان کو پہچان لیا تھا، وہ عظیم اداکار اجمل خان تھے جنہوں نے جھینپے بغیر سہیل اصغر سے کہا ”سنو جس دن تمہارا اندر تمہیں ہتھیار ڈالنے کو کہے اور اندر سے یہ آواز آئے کہ اس رستے کو چھوڑ دو، منزل نہیں ملے گی، اس دن تم نے اگر اپنے آپ کو روک لیا تو پھر تمہاری زندگی میں وہ دن آئے گا کہ جب تم بادشاہ ہوگے۔“
”صدقے تھیواں، ہم آدمی ہیں ذرا وکھری ٹائپ کے“
سہیل اصغر کے قریبی دوست نامور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کا ان کی زندگی میں بڑا اہم کردار رہا۔ اصغر ندیم بتاتے ہیں کہ 1985ء میں وہ اور پروڈیوسر محمد عظیم ڈرامہ سیریل ”آسمان“ بنا رہے تھے۔ اس کھیل کے لئے کاسٹنگ کرلی گئی تھی، ایک چھوٹے سے کردار کے لئے میں نے سہیل اصغر کو ملتان ٹیلی فون کیا اور اس کی مہربانی کہ اس نے میری پیشکش کو مسترد نہ کیا اور وہ آگیا۔ یہ تاریخ ہے کہ سہیل اصغر نے اس چھوٹے کردار میں بھی اپنے آپ کو بڑا کر کے دکھایا۔ اس کے بعد ڈرامہ سیریل ”پیاس“ میں سہیل اصغر کا میچ عابد علی اور افضال احمد سے تھا۔ سہیل اصغر نے دونوں بڑے اداکاروں کے سامنے اپنے آپ کو پوری طرح منوایا جن کے اسٹارڈم کا جادو اس وقت سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ مذکورہ کھیل میں شکیلہ قریشی نے ایک طوائف جبکہ سہیل اصغر نے اس کے لاڈلے بھائی کا رول نبھایا تھا۔ یہ لاڈلا بھائی اپنی بہن کے حسن اور فن کو اپنی خوشحالی اور خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتا ہے اور بہن کے قدردانوں سے مال بٹورنا اس کا مشن ہے۔ اس ڈرامے میں سہیل اصغر کا تکیہ کلام تھا ”صدقے تھیواں، ہم آدمی ہیں ذرا وکھری ٹائپ کے۔“ سہیل اصغر نے اپنی زندگی مسلسل جدوجہد اور اصولوں کے ساتھ گزار کر یہ ثابت کیا ہے کہ واقعی وہ وکھری ٹائپ کے آدمی تھے۔ عام طور پر سرکاری ٹی وی میں طوائف کا کردار دکھانے پر غیراعلانیہ پابندی ہوا کرتی تھی مگر اصغر ندیم سید کے لکھے ان دو کرداروں یعنی طوائف اور اس کے لاڈلے بھائی کو جس انداز سے شکیلہ قریشی کے ساتھ سہیل اصغر نے نبھایا تھا وہ پاکستان کے کلچرل آرکائیو میں ہمیشہ ایک ریفرنس کے طور پر محفوظ رہے گا۔
سہیل اصغر نے ریڈیو، ٹی وی، تھیٹر اور فلم جیسے روایتی میڈیم میں معیاری کام کیا لیکن ٹیلی وژن ان کے محبوب میڈیم رہا۔ ان کے نمایاں ڈراموں میں اصغر ندیم سید کی ایک اور ڈرامہ سیریل ”خواہش“ بھی شامل ہے۔ مذکورہ ڈرامہ میں انہوں نے سرکس سے وابستہ ایک کردار نبھایا تھا جس میں ان کے ساتھی فنکاروں میں رانی بیگم، جاوید کوڈو، حنا شاہین اور سیمی راحیل شامل تھیں۔ سہیل اصغر کا یہ کردار بھی کئی سال تک لوگوں کے دل ودماغ پر چھایا رہا۔ مرحوم کے دیگر یادگار ڈراموں میں چاند گرھن، آوازیں، منچلے کا سودا، آگ، تیری میری لو اسٹوری، آپ کی کنیز، کیسی ہے دیوانگی، اوڑس پڑوس سمیت دیگر شامل رہے۔
ٹی وی میں غیرمعمولی کامیابی کے بعد فلم والوں نے سہیل اصغر کی مقبولیت کو کیش کرانے کی غرض سے بعض فلموں میں کاسٹ کیا جن میں جنگجو گوریلے، اسلحہ، مراد اور ماہ نور شامل تھیں۔ اداکاری میں سہیل اصغر کا اسکول آف تھاٹ ریئل ازم رہا۔ انہیں مارلن برانڈو، ایل پچینو سمیت مغربی دنیا کے دیگر فنکار وں کا کام دیکھنا پسند تھا۔ دنیا کی مختلف فلموں میں کیا نئے تجربات ہورہے ہیں، انہیں ان کی خبر ہوتی تھی۔ 90 کی دہائی میں جب انڈین ہدایتکار ودھو ونود چوپڑہ نے فلم ”پرندہ“ بنائی جس کے اہم کرداروں میں نانا پاٹیکر، مادھوری ڈکشت، انیل کپور اور جیکی شیروف شامل تھے، سہیل اصغر نے راقم الحروف کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”پرندہ“ بنا کر ودھو ونود چوپڑہ نے ثابت کردیا ہے کہ انڈیا کبھی بھی ویسٹ سے اچھی فلم بنا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ممبئی میں میری ملاقات ودھو ونود چوپڑہ سے ہوئی تو میں نے انہیں سہیل اصغر کا یہ فیڈ بیک دیا تھا جس پر ودھوونود چوپڑہ نے سہیل اصغر کے لئے شکریہ کا پیغام بھیجا تھا۔
سہیل اصغر کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا تھا جو رائٹر کے لکھے اسکرپٹ کے کردار میں رنگ بھرنے کے لئے اپنے پاس سے جو جزئیات شامل کرتے تھے ان کوششوں سے وہ کردار مزید نکھر جایا کرتا تھا۔ سہیل اصغر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ”صدقے تھیواں، ہم آدمی ہیں ذرا وکھری ٹائپ کے“ یہ تکیہ کلام اصغر ندیم سید نے لکھا نہیں تھا لیکن سہیل اصغر نے جب یہ فقرہ اس کردار کا نفسیاتی لاحقہ بنانا چاہا تو انہوں نے بخوشی اس کی اجازت دی اور یوں یہ کردار یادگار بن گیا۔