شیخ لیاقت علی
قیامِ پاکستان کے بعد عیسوی کیلنڈر کے تیسرے ماہ مارچ میں سینما اسکرین کی زینت بننے والی پہلی فلم ’’ہچکولے‘‘ ہے۔ خصوصیت اس فلم کی یہ ہے کہ پاکستان میں ریلیز ہونے والی یہ دوسری فلم ہے جو 11 مارچ 1949ء کو ریلیز ہوئی۔ اک لفظی اولین اس فلم کو شیخ محمد حسین نے پروڈیوس کیا اور اس کی ڈائریکشن پاکستانی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ڈائریکٹر داؤد چاند نے دیں۔ سدھیر کی بھی یہ پہلی فلم ہے اور بھارتی اداکارہ نجمہ ہیروئن بنیں۔ معروف فلمساز و ہدایت کار، مصنف، مکالمہ نگار اور شاعر سیف الدین سیفؔ کی بھی یہ پہلی فلم ہے۔ انہوں نے ’’ہچکولے‘‘ کی کہانی و مکالمے تحریر کئے۔ ماسٹر عنایت حسین کی بھی بطور موسیقار پہلی فلم ہے۔ ان کی موسیقی کو سراہا بھی گیا۔ سدھیر نے اس فلم میں گلوکار کا کردار ادا کیا اور اُن پر گلوکار علی بخش ظہور کا گایا ہوا یہ دلکش گیت فلمایا جسے سیف الدین سیفؔ نے لکھا:
’’میں پیار کا دیا جلاتا ہوں تو چپکے چپکے آجا‘‘
یہ گیت بہت مقبول ہوا تھا اور بھارت کے نامور موسیقار نوشاد علی نے ماسٹر عنایت کو ایک خط کے ذریعے اس گیت کی کمپوزیشن کی تعریف بھی کی تھی۔
اختصاص کی حامل ماہ مارچ کی اگلی فلم ’’شاہدہ‘‘ ہے جو 18 مارچ 1949ء کو ریلیز ہوئی، لقمان کی بطور ڈائریکٹر یہ پہلی فلم ابتدا میں ’’شعاع اور شفق‘‘ کے نام سے بننا شروع ہوئی تھی۔ فلم کے موسیقاران ماسٹر غلام حیدر اور بابا غلام احمد چشتی تھے۔ نامور ہدایت کار انور کمال پاشا نے اس فلم میں لقمان کو اسسسٹ کیا جبکہ انور کمال پاشا کے والد حکیم احمد شجاع اس فلم کے مصنف و مکالمہ نگار تھے اور اس کے تمام گیت بھی انہوں نے ہی تحریر کئے تھے۔ ’’شاہدہ‘‘ کے ہیرو ناصر خان تھے جو فلم ’’تیری یاد‘‘ کے بھی ہیرو تھے اور یہ نامور فنکار دلیپ کمار کے سگے بھائی تھے۔ ناصر خان کی ہیروئن برصغیر کی نامور اداکارہ شمیم تھیں جنہوں نے انور کمال پاشا سے بعدازاں شادی کرلی تھی۔
ماہ مارچ میں اختصاص کی حامل تیسری فلم ’’چن وے‘‘ ریلیز ہوئی۔ پاکستان آنے کے بعد یہ ملکہ ترنم نورجہاں کی بطور اداکارہ و گلوکارہ پہلی فلم ہے۔ یہ فلم 29 مارچ 1951ء کو ریلیز ہوئی۔ فلم کے ٹائٹل پر ڈائریکٹر کا نام نورجہاں تحریر ہے جبکہ شنید یہ ہے کہ اس کی ڈائریکشن نورجہاں کے شوہر سید شوکت حسین رضوی نے دی تھیں۔ پنجابی زبان کی اس فلم کی موسیقی ماسٹر فیروز نظامی نے زبردست دی اور تمام ہی گیت زبانِ زد عام ہوئے۔ ’’چن وے‘‘ کی کہانی امتیاز علی تاج کی تھی اور فلم میں نورجہاں کے مقابل سنتوش کمار ہیرو بنے۔3 مارچ 1952ء کو خصوصیت کی حامل خوبصورت نغماتی فلم ’’دوپٹہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ سبطین فضلی کی پاکستان میں پہلی فلم تھی جس کی کہانی حکیم احمد شجاع نے لکھی۔ دلکش موسیقی سے فیروز نظامی نے سجایا۔ نورجہاں کی آواز میں تمام ہی گیت بے حد مقبول ہوئے۔ یہ فلم بھارت میں بھی بے حد پسند کی گئی، جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ فلم کلکتہ کے ایک ساتھ 9 سینما گھروں میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں سدھیر نے ایک ہمدرد ڈائریکٹر کا کردار نبھایا۔ نورجہاں کے مقابل ہیرو اجے کمار تھے۔26 مارچ 1954ء کو نامور فلمساز آغا جی اے گل کی پہلی اُردو فلم ’’گمنام‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے ڈائریکٹر انور کمال پاشا، کہانی نویس حکیم احمد شجاع اور موسیقار ماسٹر عنایت حسین تھے۔ ’’گمنام‘‘ میں ہیرو سدھیر اور ہیروئن صبیحہ خانم تھیں۔ اُس زمانے میں اس فلم کا یہ گیت ’’تو لاکھ چلی رے گوری تھم تھم کے، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے‘‘ بہت ہی زیادہ پاپولر ہوا۔ اقبال بانو نے اسے گایا بھی بے حد رچاؤ کے ساتھ تھا اور اس گیت کا شمار نغمہ نگار سیف الدین سیفؔ کے شاندار گیتوں میں ہوتا ہے۔
اختصاص کی حامل اگلی فلم ’’بھابھی‘‘ 29 مارچ 1960ء کی عیدالفطر پر ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے فلمساز و ہدایت کار عطا اللہ ہاشمی، موسیقار تصدق حسین اور نغمہ نگاران طفیل ہوشیارپوری، محی الدین فاسک، مشیر کاظمی تھے۔ ہاشمی صاحب جو چربہ فلمیں بنانے کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتے تھے انہوں نے فلم ’’بھابھی‘‘ بھی ایک بھارتی فلم کا ہوبہو چربہ بنائی۔ چربہ ہونے کے باوجود یہ فلم خواتین نے زیادہ پسند کی۔
خصوصیت کی حامل ماہ مارچ کی اگلی فلم ’’فرشتہ‘‘ 18 مارچ 1961ء کو عیدالفطر کے دن ریلیز ہوئی، فلمساز و ہدایت کار لقمان، موسیقار رشید عطرے، کہانی کو کمال احمد رضوی اور علی سفیان آفاقی نے تحریر کیا اور نغمہ نگاران تنویر نقوی اور مظفر وارثی تھے۔ ’’فرشتہ‘‘ کی کہانی ایک روسی ناول جس کا اُردو نام ’’جرم و سزا‘‘ رکھا گیا سے ماخوذ تھی اور روسی ناول کے مصنف ’’دوستومنیسکی‘‘ تھا۔ فرشتہ کی کاسٹ میں اعجاز، یاسمین، حسنہ، طالش، علاؤالدین کے نام نمایاں ہیں۔
مارچ کی ریلیز اختصاص کی حامل اگلی فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ 9 مارچ 1962ء بروز عیدالفطر ریلیز ہوئی، فلم کے فلمساز و ہدایت کار مصنف و شاعر فضل احمد کریم فضلی نے اس فلم میں محمد علی، کمال ایرانی، طلعت حسین اور زیبا کو متعارف کرایا۔ ریڈیو پاکستان کراچی کے موسیقار نہال عبداللہ بھی اسی فلم سے متعارف ہوئے۔ یہ فلم پہلے ’’شاکر‘‘ کے نام سے بننا شروع ہوئی تھی۔ اس فلم میں فضلی صاحب نے حضرت امیر خسرو، میر تقی میر، مرزا غالب، جگر مراد آبادی اور ماہرالقادری کے کلام کو شامل کیا اور معروف بھارتی گلوکار طلعت محمود کے گائے دو نغمات اس فلم میں شامل تھے۔ اس فلم کے پریمیئر شو میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت فرمائی تھی۔13 مارچ 1964ء کو پنجابی زبان کی آرٹ فلم ’’وارث شاہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلم کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں پنجابی زبان کے عظیم شاعر وارث شاہ اور بھاگ بھری کے رومان کو پردہ سیمیں پر منتقل کیا گیا تھا۔ فلمساز عنایت حسین بھٹی نے وارث کا مرکزی کردار اور بہار بیگم نے بھاگ بھری کا کردار نبھایا تھا۔ ’’وارث شاہ‘‘ کے ہدایت کار سعید اشرفی اور موسیقار عاشق حسین تھے۔ دیگر کاسٹ میں اکمل، مینا شوری، ناصرہ، آصف جاہ اور اے شاہ شکارپوری شامل تھے۔
اب بات ہوگی پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ’’ارمان‘‘ کی جو 18 مارچ 1966ء کو سینما گھروں کی زینت بنی۔ ارمان کے فلمساز، مصنف اور ہیرو چاکلیٹی ہیرو وحید مراد تھے۔ پرویز ملک کی فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ کے بعد یہ دوسری بطور ڈائریکٹر فلم ہے جس کی دلکش موسیقی سہیل رعنا نے دی اور خوبصورت نغمات مسرور انور نے رقم کئے تھے۔ کاسٹ میں وحید مراد کے علاوہ زیبا، ترنم، نرالا، روزینہ، کمال ایرانی، ببو بیگم اور ظہور احمد شامل تھے۔ ارمان کو مختلف شعبوں میں چھ نگار ایوارڈ ملے تھے۔ اس فلم کی سپر ہٹ ملک گیر کامیابی میں دلکش موسیقی و نغمات کا اہم عمل دخل تھا۔
ارمان اپنے اس اختصاص کی بنا پر کہ پاکستان کی اولین پلاٹینم جوبلی بنی، کلاسک فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ سپر اسٹار ندیم کی بطور ادکار پہلی فلم ’’چکوری‘‘ 22 مارچ 1967ء کو سب سے پہلے سابقہ مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ریلیز ہوئی۔ چکوری سے قبل ندیم کی دو فلمیں ’’کیسے کہوں‘‘ اور ’’بے گانہ‘‘ بطور گلوکار ریلیز ہوچکی تھیں۔ ندیم سمیت اس فلم کی چھ شخصیات کو مختلف شعبوں میں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ’’ارمان‘‘ کے بعد ’’چکوری‘‘ کو پاکستان کی دوسری پلاٹینم جوبلی فلم بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس کی کاسٹ میں ندیم، شبانہ، ریشماں، مصطفی، مرزا شاہی، جلیل افغانی، ڈیئر اصغر شامل تھے۔ کراچی میں ’’چکوری‘‘ 19 مئی 1967ء کو سابقہ مین سینما پیراڈائز کی زینت بنی۔ موسیقار روبن گھوش اور نغمہ نگار اختر یوسف کے اشتراک سے دلکش نغمات سماعتوں سے ٹکرائے۔
اختصاص کی حامل ماہ مارچ کی اگلی فلم ’’بن بادل برسات‘‘ 7 مارچ 1975ء کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا پورا یونٹ خواتین پر مشتمل تھا۔ پروڈیوسر و ڈائریکٹر زینت بیگم، موسیقار شمیم نازلی، کہانی نویس جہاں آرا ہارون تھیں۔ فلم کی کاسٹ میں محمد علی، زیبا، لہری، شاہد، سنگیتا، نیئر سلطانہ شامل تھے۔ یہ فلم گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔
پاکستانی فلمی تاریخ کی اولین کراؤن جوبلی فلم ’’آئینہ‘‘ 18 مارچ 1977ء کو ریلیز ہوئی۔ کراچی کے بمبینو سینما پر یہ فلم سال سے زیادہ نمائش پذیر رہی، بعدازاں اسے اسکالا پر شفٹ کردیا گیا، جہاں یہ 4 سال 9 ماہ اور 27 دن نمائش پذیر رہی اور مجموعی طور پر اپنی نمائش کے 401 ہفتے مکمل کئے۔ ’’آئینہ‘‘ کے فلمساز اے آر شمسی، ہدایت کار نذرُالاسلام، موسیقار روبن گھوش تھے۔ کاسٹ میں ندیم، شبنم، بہار، ریحان، قوی، ناصرہ، خالد سلیم موٹا، زرقا، حنیف، نمو اور چائلڈ اسٹار ماسٹر شاہ زیب شامل تھے۔ اس فلم کو مختلف شعبوں میں 12 نگار ایوارڈ دیئے گئے جو اُس زمانے میں ایک ریکارڈ بنا۔23 مارچ 1979ء یوم پاکستان پر شاہکار کلاسک فلم ’’خاک اور خون‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلمساز ادارہ نیف ڈیک تھا، نسیم حجازی کے اسی نام کے مشہور ناول پر ماخوز اس تاریخی فلم کے ڈائریکٹر مسعود پرویز، موسیقار نثار بزمی، عکاسی مسعود الرحمن اور آرٹ ڈائریکٹر حاجی محی الدین تھے۔ فلم کی کاسٹ میں زیادہ تر ٹیلی ویژن فنکار تھے جن میں آغا فراز، نوین تاجک، شجاعت ہاشمی، عابد علی، ظل سبحان اور محبوب عالم وغیرہ شامل تھے۔ پاکستان کی اس یادگار فلم نے مختلف شعبوں میں آٹھ نگار ایوارڈ حاصل کئے گھے۔13 مارچ 1987ء کو چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی آخری فلم ’’زلزلہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ ہدایت کار اقبال یوسف کی اس ایکشن فلم میں وحید مراد کے علاوہ سدھیر، سلطان راہی، آصف خان، رانی وغیرہ بھی تھے۔ امید یہ کی جا رہی تھی کہ وحید مراد کی آخری فلم ہونے کی وجہ سے یہ فلم اُن کے مداحوں میں مقبول ہوگی مگر اس کے باوجود یہ فلم بُری طرح فلاپ ہوگئی۔
اختصاص کی حامل ماہ مارچ کی ایک اور فلم ’’شانی‘‘ 10 مارچ 1989ء کو سینما گھروں کی زینت بنی۔ یہ پاکستان کی پہلی سائنس فکشن فلم ہے جس کے فلمساز رفیق رضوی، ہدایت کار سعید رضوی، کہانی نویس آغا نذیر کاوش اور موسیقار انجم تھے۔ ’’شانی‘‘ میں بابرا شریف، شیری ملک، آغا طالش، نیئر سلطانہ، آصف خان اور محمد علی شامل ہیں، اس فلم کو مختلف شعبوں میں سات نگار ایوارڈ دیئے گئے۔3 مارچ 1995ء کی عیدالفطر پر سید نور کی بطور ڈائریکٹر دوسری فلم ’’جیوا‘‘ سلور اسکرینز کی زینت بنی، دوست ملک ترکی میں عکس بند اس فلم کے فلمساز سہیل بٹ اور موسیقار ایم ارشد تھے، کاسٹ میں ندیم، ریشم، بابر علی، جاوید شیخ، مصطفی قریشی، غلام محی الدین، نیلی شامل تھے۔ اس فلم نے لاہور میں شاندار پلاٹینم جوبلی کی اور کراچی میں کامیابی کے ساتھ 31 ہفتے نمائش پذیر رہی۔
اختصاص کی حامل ماہ مارچ کی اب تک آخری فلم ’’مجاجن‘‘ ہے جو 24 مارچ 2006ء کو ریلیز ہوئی۔ پنجابی زبان کی یہ سپر ہٹ فلم 21 ویں صدی کی پہلی دہائی کی بلاک بسٹر فلم ثابت ہوئی۔ ’’مجاجن‘‘ کی فلمساز صائمہ، ہدایت کار اور مکالمہ نویس سید نور، کہانی نویس رخسانہ نور اور موسیقار ذوالفقار علی ہیں۔ مجاجن میں ٹائٹل رول صائمہ نے ادا کیا۔ دیگر کاسٹ میں صائمہ کے علاوہ شان، مدیحہ شاہ، سعود، افتخار بھاکر، شبنم چوہدری، سردار کمال، راشد محمود، گوشی خان اور شیر خان شامل تھے۔ اس فلم نے نہ صرف لاہور میں ڈائمنڈ جوبلی کا اعزاز حاصل کیا بلکہ یہ اپنے دو مین سینماؤں میٹروپول اور سوزو گولڈ میں الگ الگ سلور جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔