صحت مند افراد عموماً خوش و خرم رہتے ہیں۔ وہ اپنا روزمرہ کا کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔ وہ لوگوں اور چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں۔ ان کے پاس توانائی کا ذخیرہ ہوتا ہے اور جلد نہیں تھکتے۔ ان کے ذہن میں نئے خیالات آتے ہیں جن کی بدولت وہ زندگی میں کامیاب اور کامران رہتے ہیں۔ صحت کی طرف سے لاپروائی جسم کے لئے بہت سے مسائل کھڑے کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے درد، تکلیف، بے چینی اور بے آرامی عارضی بھی ہوسکتی ہے اور مستقل بھی۔ اکثر لوگ ان مسائل سے بہت زیادہ گھبرا جاتے ہیں جبکہ بیشتر افراد ہمت سے کام لیتے ہیں اور تکالیف کو زندہ دلی سے برداشت کرتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ تندرست انسان میں مشکلات سے مقابلہ کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں تک ممکن ہو بیماریوں سے بچنا چاہئے۔ فی زمانہ امراض اور اس کی تباہ کاریوں سے بچاؤ میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔ ہم بیشتر بیماریوں کے بارے میں یہ جاننے لگے ہیں کہ وہ کیسے پیدا ہوتی ہیں، کس طرح جسم کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ان سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔ اگر کبھی کوئی بیماری ہو بھی جائے تو کن ذرائع سے اس کو تباہ کن صورت اختیار کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ بیماری کا علاج، بیماری سے بچاؤ کی کبھی برابری نہیں کرسکتا ہے۔ علاج اس وقت کیا جاسکتا ہے جب بیماری موجود ہو۔ علاج ہر وقت کامیاب بھی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اخراجات کے بارے میں دیکھا جائے تو بیماری کے بچاؤ پر اگر دس روپے یا سو روپے خرچ آتے ہیں تو علاج پر سو گنا، ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ اخراجات آ سکتے ہیں اور علاج کامیاب نہ ہو تو جان بھی جاسکتی ہے۔ البتہ بیماریوں سے بچاؤ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسان کو تندرست رکھ سکتا ہے اور اسے معذور یا کمزور ہونے سے بچا سکتا ہے۔ بیماریوں سے بچاؤ ہی کی بدولت آج دنیا میں بے شمار افراد لمبی عمر تک صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوئے ہیں۔ آج سے پچاس ساٹھ سال قبل بچوں کی اکثریت بیشتر موذی امراض مثلاً خناق، خسرہ، پولیو، تپ دق اور دستوں وغیرہ میں مبتلا ہوجاتی تھی لیکن آج بہت سی خطرناک بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہوگیا ہے۔ ان خطرناک بیماریوں پر کامیابی انفیکشن کنٹرول کے بہتر طریقوں، غذاؤں کے بارے میں بہتر معلومات، ٹیکوں کے طریقوں میں ترقی اور باقاعدہ طبی معائنہ جس سے امراض کی ابتدا میں تشخیص ہوجاتی ہے، کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ صحت و صفائی کے بارے میں آگاہی کو بنیادی اہمیت دینا ضروری ہے۔ جو سرمایہ کسی پسماندہ علاقے میں بہت بڑے اسپتال قائم کرنے پر صرف کیا جائے، اس کے بجائے اسی سرمائے کو اس علاقے میں جراثیم، کیمیائی مادوں اور ضرر رساں معدنیات سے پاک صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے استعمال کیا جائے تو وہاں شاید اس بڑے اسپتال کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح بڑے بڑے اسپتالوں کی تعمیر سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو آلودگی سے پاک ہوا، پانی اور غذا فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں صحت و صفائی کا گہرا شعور بیدار کیا جائے۔ اگر ہم صحت اور صفائی کا خیال رکھیں، حکومتی ادارے صاف ہوا، غذا اور پانی فراہم کرنے پر توجہ دیں، بیمار پڑنے سے پہلے ہی بیماری سے بچنے کی کوشش کی جائے تو بیماری سے صحت یابی کے لئے خرچ ہونے والے کروڑوں، اربوں روپے کی خطیر رقم کو ہم اپنے بچوں کی اچھی تعلیم، زیادہ بہتر معیار زندگی، زیادہ اچھی رہائش، زیادہ اچھے لباس اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں صرف کرسکتے ہیں۔ اب یہ بات ہمیں اور آپ کو طے کرنا ہے کہ ہم اسپتالوں کی رونق بڑھانا چاہتے ہیں یا صحت و صفائی اور احتیاط کو اپنا کر اپنے گھروں کی رونق میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔