Monday, May 20, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

آہ! اداکار شکیل بھی دنیا سے رخصت ہوا

شکیل جتنا اچھا آرٹسٹ تھا اس سے کہیں زیادہ اچھا انسان تھا، اس کی زندگی کا مقصد کام اور بس کام تھا
یونس ہمدم

وہ خوبرو تھا وہ خوش خصال تھا وہ باکمال تھا وہ شکیل جمیل تھا ٹیلی ویژن کی دنیا میں برسوں اس کے چرچے رہے، اس کے فلمی دنیا میں بھی قصے رہے مگر ایک دن اسے بھی اس دنیا سے جانا تھا۔ اسے بھی رونق دنیا کو خیرباد کہنا تھا اسے بھی ایک روز اپنے بے شمار چاہنے والوں کو اشکوں کا نذرانہ دینا تھا اور 29 جون 2023ء اس کی زندگی کا آخری دن تھا۔
اداکار شکیل اسپتال کے بستر پر ہی بیماری کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا، اس وقت مجھے مشہور شاعر سرور بارہ بنکوی کا ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
شکیل کی شخصیت میں ایک ایسی ہی بات تھی۔ وہ دلکش بھی تھا اور دلربا بھی۔ اداکار شکیل سے میری بارہا ملاقاتیں کراچی میں بھی ہوئیں اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی پھر اس زمانے میں بھی جب ریڈیو اسٹیشن کراچی پر میں پروگرام بزم طلبا میں حصہ لیتا تھا تو شکیل ریڈیو کے نامور صداکار تھے۔ ریڈیو کا ایک وہ بھی دور تھا جب کراچی میں ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا تو صرف ریڈیو کے پروگرام ہی سامعین کی دلچسپی کا مرکز ہوا کرتے تھے پھر جب ٹیلی ویژن کا کراچی سے آغاز ہوا تو ریڈیو کے نامور اور باصلاحیت آرٹسٹوں ہی نے ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو سجانے اور سنوارنے کا کردار ادا کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اداکار شکیل کو شکیل کا نام مشہور فلم ساز و ہدایت کار ایس ایم یوسف نے دیا تھا۔ شکیل کا گھریلو نام یوسف کمال تھا، ایس ایم یوسف نے خوبرو یوسف کمال کو ایک تقریب میں دیکھا تھا اور پھر اس نوجوان کو اپنی فلم ”ہونہار“ کے لئے کاسٹ کرلیا تھا، اس کے لئے بھی یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ ایک نامور فلمساز و ہدایت کار کی یہ گڈ بک میں آگیا ہے۔ ایس ایم یوسف صاحب نے اس نوجوان کو فلمی نام دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نام تمہاری خوش جمال شخصیت کی عکاسی کرتا ہے اور ویسے بھی تمہارے نام کے دو آرٹسٹ پہلے سے فلمی دنیا میں موجود ہیں، یوسف خان مشہور اردو اور پنجابی فلموں کے ہیرو ہیں جبکہ کمال کے نام سے بھی ایک باکمال ہیرو فلمی دنیا میں کام کررہا ہے، اب تم نے شکیل کے نام سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنا ہے، پھر شکیل نے اپنی ابتدا فلم ”ہونہار“ سے کی تھی۔ ”ہونہار“ کے دیگر آرٹسٹوں میں وحید مراد، رخسانہ، ترنم، سیما، ظہور احمد، فیض اور نرالا کے نام شامل تھے، یہ فلم 1966ء میں ریلیز ہوئی مگر یہ فلم ناکام فلموں میں ایک اضافہ ہی ثابت ہوئی تھی۔ اس طرح شکیل کو زیادہ پذیرائی نہ مل سکی تھی، پھر شکیل کو بڑی مشکل سے چند فلموں میں کام ملا تھا جن میں جوش انتقام، ناخدا، پاپی اور زندگی کے نام شامل تھے، شکیل لاہور میں بھی کافی عرصہ رہے مگر لاہور کی فلمی دنیا اس کو راس نہ آسکی تھی۔
لاہور کا فلمی ماحول بھی شکیل کے لئے سازگار نہ ہوسکا تو پھر شکیل لاہور سے واپس کراچی آگیا اور پھر کراچی ٹیلی ویژن پر اس نے آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے تھے۔ یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ کراچی کے کئی ٹیلی ویژن آرٹسٹوں نے لاہور کی فلموں میں کام کرنے کی کوشش کی تھی جن میں طلعت حسین، قربان جیلانی، معین اختر، جمشید انصاری، طلعت اقبال شامل تھے مگر ان آرٹسٹوں کو بھی فلمی دنیا میں قدر و منزلت حاصل نہ ہوسکی تھی اور نہ ہی وہاں کے فلمسازوں نے ان آرٹسٹوں کو قبول کیا تھا تو پھر یہ آرٹسٹ لاہور کی فلم انڈسٹری چھوڑ کر واپس کراچی آ کر ٹیلی ویژن کی دنیا سے وابستہ ہوگئے تھے۔
اداکار شکیل بھی ان میں سے ایک تھا مگر جب اس نے اپنی تمام تر توجہ ٹیلی ویژن کی طرف مرکوز کردی تھی تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اداکار شکیل کراچی ٹیلی ویژن کی ضرورت اور ایک ناگزیر آرٹسٹ بن گیا تھا۔ کراچی ٹیلی ویژن پر ان دنوں نامور اور ذہین رائٹرز کی بڑی کمی تھی پھر آہستہ آہستہ حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا جیسی مشہور خواتین رائٹرز نے ٹیلی ویژن کا رخ کیا تو ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں جیسے جان سی پڑ گئی تھی۔
1969ء میں کراچی ٹیلی ویژن پر فیملی ڈراموں کا آغاز کیا گیا تھا اور حسینہ معین صاحبہ نے ٹیلی ویژن کے لئے ایک ڈرامہ سیریل ”شہ زوری“ لکھا تھا جس کے ہدایت کار محسن علی تھے نیلوفر علیم اور شکیل اس ڈرامے کے مرکزی کردار تھے جب کہ دیگر آرٹسٹوں میں عشرت ہاشمی، جمشید انصاری، قاضی واجد اور محمود علی وغیرہ شامل تھے۔ اس ڈرامے میں باصلاحیت آرٹسٹوں کی ایک ٹیم شامل تھی۔ اس ڈرامے کا ہر ہفتہ ناظرین بڑی بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ اس ڈرامے میں نیلوفر علیم (بعد کی نیلوفر عباسی) نے بڑی بے باک اداکاری کی تھی۔ ڈرامہ سیریل میں خاص طور پر شکیل، نیلوفر علیم اور جمشید انصاری کی اداکاری کو بے حد پسند کیا جاتا تھا۔ شکیل کے مکالمے بولنے کا انداز بڑا جداگانہ ہوتا تھا۔ شکیل نے ڈرامہ ”انکل عرفی“ میں بھی اپنی کردار نگاری سے ہزاروں ناظرین کے دل موہ لئے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب شکیل شہرت کے آسمان پر تھا ہر ٹی وی پروڈیوسر کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کے ڈرامے میں شکیل مرکزی کردار ادا کرے، یہ بھی بڑی عجیب بات تھی کہ جس اداکار کو لاہور کے فلمسازوں نے اس قابل نہیں گردانا تھا کہ وہ ان کی فلموں کی زینت بنے پھر وہی اداکار ٹیلی ویژن کی دنیا پر چھا گیا تھا، اس کا ہر آنے والا ڈرامہ اس کے پچھلے ڈرامے سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ شکیل کے یوں تو سارے ڈرامے ہی لاجواب اور بے مثال تھے مگر چند ڈراموں کی بازگشت آج بھی ناظرین کے دلوں میں موجود ہے اور وہ ڈرامے تھے انتظار فرمائیے، چمن اپارٹمنٹ، افشاں، عروسہ، کرن کہانی، زیر زبر پیش اور آنگن ٹیڑھا اس ڈرامے کے رائٹر انور مقصود تھے اور یہ ڈرامہ بھی اپنے وقت کا انتہائی خوبصورت اور پسندیدہ ڈرامہ تھا، اس ڈرامے میں مزاح اور طنز کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس ڈرامے میں بشریٰ انصاری، دردانہ بٹ، ارشد محمود، خالد نظامی اور سلیم ناصر کے جاندار کرداروں نے اس ڈرامے کا حسن کچھ اور بڑھا دیا تھا پھر انور مقصود کے دلچسپ مکالموں کی تو بات ہی اور تھی برجستگی اور شگفتگی ہر ہر منظر میں محسوس ہوتی تھی۔
میں یہ اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ٹیلی ویژن کے بعض ڈراموں کی تھیم ہماری بے شمار فلموں کی کہانیوں سے بہتر ہوتی تھی اور جتنی توجہ اور دلچسپی سے لوگ ٹیلی ویژن کے ڈرامے دیکھتے تھے وہ ذوق و شوق فلمیں دیکھنے کا کم سے کم ہوتا جا رہا تھا۔ پاکستان کے ٹی وی ڈرامے ہندوستان میں بھی بڑے شوق سے دیکھے جاتے تھے اور ہمارے ٹی وی آرٹسٹوں کو ہندوستان میں بھی بہت پسند کیا جاتا تھا، یہاں میں ایک اور دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ ڈرامہ ”شہ زوری“ کی اداکارہ نیلوفر علیم کو اس دور کے مشہور فلمساز و ہدایت کار پرویز ملک نے اپنی ایک فلم ”انمول“ کے لئے کاسٹ کرنا چاہا تھا جب پرویز ملک اس مقصد کے لئے کراچی آئے اور فلم میں کام کرنے کی آفر کی تھی تو نیلوفر علیم کے گھر والوں نے فلم میں کام کرنے سے انکار کردیا تھا اور نیلوفر علیم کو بھی فلموں سے زیادہ ٹیلی ویژن کے لئے کام کرنا پسند تھا پھر پرویز ملک نے اپنی فلم ”انمول“ میں اداکارہ شبنم کو کاسٹ کیا تھا اور اسے نیلوفر عباسی جیسی اداکاری کرنے کے لئے ڈرامہ شہ زوری بھی دکھایا تھا۔ اسی طرح اداکار شکیل کو بعد میں ایک دو فلمسازوں نے اپنی فلم میں کام کی آفر بھی کی تھی جسے شکیل نے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ فلمی دنیا ریس کے گھوڑے کو پسند کرتی ہے آرٹسٹ کو نہیں، جو جیت گیا اسے لے لیا جو ہار گیا اسے بھلا دیا جاتا ہے۔
امریکا آنے سے پہلے میری اداکار شکیل سے کئی بار طارق روڈ کی دوپٹہ گلی میں ملاقات ہوجاتی تھی، میں وہاں ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے منسلک تھا، شکیل جب بھی ملتا مسکراہٹ اس کے چہرے پر ہوا کرتی تھی، وہ بہت ہی خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھا اس نے زندگی میں سب کے ساتھ اچھا ہی کیا تھا وہ جتنا اچھا آرٹسٹ تھا اس سے کہیں زیادہ اچھا انسان تھا۔ اس کی زندگی کا مقصد کام اور بس کام تھا، اس نے اپنا ذاتی کاروبار بھی کیا ہوا تھا، وہ ہمیشہ خوشحال رہا اور دوستوں کے کام بھی آتا رہا، اس میں بناوٹ اور دکھاوا نہیں تھا، وہ ایک سچا اور کھرا آرٹسٹ تھا، جب تک وہ کام کرتا رہا اس کا سکہ چلتا رہا۔ ہماری دعا ہے اللہ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین۔)

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل