ایران کا مقابلہ یہاں امریکا، فرانس، برطانیہ کے ساتھ رہا ہے جو متحدہ عرب امارات، عمان، سعودی عرب کی پشت پناہی کرتے ہیں
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ
دنیا میں شروع ہی سے وہ قومیں جو پوری دنیا میں طویل عرصے تک خود کو سپر پاور کے طور پر منواتی رہی ہیں اُن میں ایک واضح قدر مشترک یہ رہی ہے کہ اُن کی بحریہ بہت مضبوط اور طاقتور تھی، چاہے وہ یونانی، رومی تھے یا اسلامی دور اور پھر اس کے بعد برطانیہ اور پھر پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی 1911ء میں دنیا میں پہلا طیارہ بردار بحری بیڑہ بنانے والا امریکا۔
امریکا جنگِ عظیم اوّل کے آخر میں جنگ میں شامل ہوا تو وہ اپنی مضبوط بحریہ کی وجہ سے اُسی سال برطانیہ سے سپر پاور کا اعزاز لینے لگا تھا اور پھر دوسری جنگ عظیم سے قبل ہی امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا مگر 1949ء سے سرد جنگ میں جب سابق سوویت یونین بھی ایٹمی قوت بنا تو سپر پاور کے اعتبار سے متوازن صورت سامنے آئی جس کو 1990ء کے بعد امریکا نے دوبارہ حاصل کیا اور اب 1990ء کے 31 سال گزر جانے کے بعد امریکا کے مقابلے میں اقتصادی میدان میں پہلے نمبر کا چیلنج چین اور عسکری ٹیکنالوجی میں روس بن گیا ہے، جب کہ دونوں کی مجموعی فوجی طاقت امریکا سے کچھ زیادہ ہے۔
اقتصادی اور دفاعی یا عسکری قوت کے ساتھ چونکہ امریکا کی دیرینہ قربت برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، اسرائیل اور نیٹو کے دیگر ملکوں کے ساتھ ہے، اب گزشتہ چند برسوں سے بھارت بھی امریکا کا اتحادی بن گیا ہے تو دنیا میں پہلی، دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے زمانے کی طرح صف بندی ہو رہی ہے۔ اِس پو رے تناظر میں چند برسوں سے جنوبی بحر چین ”ساؤتھ چائنا سی“ اور خلیجِ عمان اور خلیج فارس خصوصاً آبنائے ہرمز (اسٹریٹ آف ہورموز) کے علاقے اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
خلیج عمان خلیج فارس اور آبنائے ہرمز چونکہ پاکستان کے ساحل مکران پر گوادر سے بہت قریب ہیں اس لئے یہاں ہونے والی جنگی سرگرمیاں پاکستان کے لئے بھی تشویش کا سبب بن سکتی ہیں۔ آبنائے ہرمز خلیج فارس سے کھلے سمندر بحیرہ تک درمیانی آبی یا سمندری راستہ ہے۔ یہ سمندری گزرگاہ اسٹرٹیجک اعتبار سے دنیا کی اہم ترین سمندری گزرگاہ ہے۔ یہ 90 ناٹیکل میل یعنی 167 کلومیٹر لمبی 21 نا ٹیکل میل 39 کلومیٹر چوڑی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ عالمی تحقیقاتی اداروں کی ریسرچ رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
کیسیس یعنی سینٹر فور اسٹرتڑیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹیڈز
جو امریکا واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک اہم امریکی تھنک ٹینک ہے جو سینٹر فار اسٹیڈیز آف جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں 1962ء میں قائم کیا گیا تھا، اس کی ریسرچ کے مطابق 2007ء میں خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے یومیہ 17 ملین بیرل تیل بحری جہاز لے کر گزرتے تھے جو اُس وقت دنیا کا تقریباً 40 فیصد تیل تھا۔ ای آئی اے یہ بھی ایک ایسی امریکی ایجنسی ہے جو امریکا میں وفاقی سطح پر شماریاتی اور معلومات فراہم کرنے کا ادارہ ہے۔
اس کی بنیادی ذ مہ داری ہے توانائی یا انرجی سے متعلق اعدادوشمار اور معلومات کو اکٹھا کرنا اور تجزیے کر کے امریکی پالیسی ساز اور بہتر مارکیٹنگ کے لئے کام والوں کو فراہم کرنا ہے۔ای آئی اے کے مطابق 2011ء میں خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے روزانہ اوسطاً 14 آئل ٹینکرز 17 ملین بیرل تیل لے کر گزرتے رہے جو دنیا بھر میں سمندری راستے سے گزرنے والے مجموعی تیل کا 35 فیصد تھا اور دنیا میں تیل کی تجارت کا 20 فیصد تھا اور اِس تیل کا 85 فیصد ایشیائی مارکیٹ یعنی جاپان، بھارت، جنوبی کوریا، اور چین کو جاتا ہے، جب کہ 2018ء میں 21 ملین بیرل تیل یومیہ آبنائے ہرمز سے گیا جس کی کل مالیت ستمبر 2019ء کی عالمی قیمتوں کے مطابق 1.17 بلین یومیہ تھی۔
اب جہاں تک تعلق تنگ سمندری گذرگاہوں کا ہے تو یہ قدرتی اور مصنوعی دو طرح کی ہوتی ہیں آبنائے یعنی اسٹریٹ یا واٹروے ایسی قدرتی سمندری گذرگاہ ہوتی ہے جب کہ اس دنیا میں برطانیہ، فرانس اور امریکا نے دو ایسی مصنوعی سمندری گذرگاہیں بھی بنائی ہیں جن سے ہزاروں کلومیٹر سمندری فاصلہ کم کردیا گیا، اِن میں سے ایک نہر سوئز اور دوسری پانامہ نہر ہے۔ نہر سوئز فرانس، مصر اور برطانیہ نے تعمیر کی تھی اور 1869ء سے کھول دی گئی۔ یہ بحر روم کو بحیرہ احمر سے ملاتی ہے۔ 193 کلومیٹر طویل ہے۔2012ء کے ریکارڈ کے مطابق نہر سوئز سے 17225 بحری جہاز گزرے یعنی اوسطاً 47 جہاز یومیہ گزرتے رہے۔ نہر پانامہ کی لمبائی 85 کلومیٹر ہے جو بحرِ الکاہل اور بحر اقیانوس کو ملاتی ہے، اس پر 1881ء میں فرانس نے کام بند کردیا تھا۔ پھر امریکا نے اس کو 1904ء سے تعمیر کرنا شروع کیا اور 1912ء میں کھول دیا۔ اسی طرح جب بات خلیج کی ہوتی ہے تو اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ ایسا سمندر جس کے تین اطراف میں خشکی ہو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خشکی کے خطوں کے درمیان واقع سمندر ہو۔ آبنائے ہرمز، خلیج عمان اور خلیج فارس کے گرد تین ملک واقع ہیں۔
نمبر ایک ایران جس کا رقبہ 1648195 مربع کلومیٹر ہے، خشکی سے اس کی سرحدوں کی کل لمبائی 5894 کلومیٹر ہے جس میں افغانستان سے سرحد کی لمبائی 921 کلومیٹر، آرمینا سے سرحد کی لمبائی 44 کلومیٹر آذربائیجان سے باقاعدہ سرحد 432 کلومیٹر، دوسری جانب 179 کلومیٹر، عراق سے ملنے والی سرحد 1599 کلومیٹر، پاکستان سے ملنے والی سرحد کی لمبائی 959 کلومیٹر، ترکی سے سرحدی لمبائی 534 کلومیٹر، ترکمانستان سے سرحدکی لمبائی 1148 کلومیٹر ہے۔ ایران کے ساحل کی کل لمبائی 2815 کلومیٹر ہے۔ ایران کے شمال میں بحیرہِ کیسپین جو دنیا میں اپنے 371000 مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ کھارے پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے، اس پر ایرانی ساحل کی کل لمبائی 1100 کلومیٹر ہے اور جنوب میں خلیج فا رس اور ہرمز پر ایران کا ساحل 1770 کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔
خلیج کی دوسری جانب ایران کے سامنے عمان واقع ہے۔ عمان کا رقبہ 309500 مربع کلومیٹر، خشکی سے اس کی سرحد 676 کلومیٹر لمبائی کے ساتھ سعودی عرب سے ملتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ عمان کی سرحد کی لمبائی 410 کلومیٹر ہے اور یمن کے ساتھ عمان کی سرحد کی لمبائی 288 کلومیٹر ہے جب کہ خلیجِ عمان،خلیجِ فارس اور ہرمز پر عمان کے ساحل کی کل لمبائی 3165 کلومیٹر ہے اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات ہے جس کا رقبہ 83600 مربع کلومیٹر ہے۔ خشکی پر اس کی کل سرحدی لمبائی 867 کلومیٹر ہے جو سعودی عرب اور عمان سے ملتی ہیں۔
آبنائے ہرمز پر اور اس کے قریب چند جزائر اور بندر گاہوں کی بھی خصوصی اہمیت ہے۔ جزیرہ ہورمز یہ ایرانی جزیرہ خلیج فارس میں ایرانی ساحل سے 8 کلومیٹر سمندر میں واقع ہے اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 610 فٹ ہے۔ اس کا رقبہ 42 کلومیٹر ہے۔ ایران کے صوبے ہومزگان کا حصہ ہے۔ یہاں سرخ پہاڑی چٹانیں ہیں جو طلوع و غروب آفتاب پر بہت خوبصورت مناظر کا سبب بنتی ہیں۔ خلیج فارس میں آبنائے ہرمز پر ایران کا ایک اہم اور بڑا جزیرہ قشم ہے جس کا رقبہ 1491 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ جزیرہ 135 کلومیٹر لمبا اور 40 کلومیٹر تک چوڑا ہے۔
اس کی آبادی 148993 ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ اچومی کہلاتے ہیں اور اِن کی اکثریت سنی ہے جب کہ ان میں ایک بڑی تعداد شیعہ کی بھی ہے، اگرچہ پاکستان کے قریب بحیرہ عرب پر بھی ایران کی ایک بندرگاہ چابہار ہے لیکن خلیج فارس پر ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ بندر عباس ہے جو صوبہ ہورمزگان کا صوبائی دارالحکومت بھی ہے۔
ایران کی بحری راستے سے ہو نے والی 90 فیصد تجارت اسی بندرگاہ سے ہوتی ہے۔ یہ ایرانی نیول بیس اور ایران کا بڑا فوجی مرکز بھی ہے، اس کے تقریباً مقابل پر عمان و مسقط ہے اور اس کے کونے پر جہاں عمان کی سرحد متحدہ عرب امارات سے ملتی ہے، یہاں سلطنتِ عمان کا ایک چھوٹا مگر نہایت خوبصورت ساحلی شہر خصب ہے، اس شہر کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے مسقط کا ناروے کہا جاتا ہے۔
یہاں کے پہاڑ بہت دلکش ہیں، یہاں پورے عمان سے لوگ تفریح کے لئے آتے ہیں اور یہاں مقامی آبادی کم اور بھارتی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی زیادہ تعداد میں ہیں، جو یہاں محنت مزدوری کرتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کی بڑی بندرگاہیں دبئی میں ہیں۔ سرد جنگ، دوسری جنگِ عظیم کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی اور اس کے ابتدائی برسوں میں خصوصاً جب تک مصر، عراق اور شام میں بادشاہتیں تھیں اس دوران عراق، ایران، ترکی اور پاکستان برطانیہ کے ہمراہ سیٹو، سینٹو کے ساتھ شامل تھے۔ پھر آنے والے برسوں میں جب سابق سوویت یونین امریکا کے مقابل کھڑا ہوگیا تھا اور سب سے پہلے مصر میں جنرل نجیب اور کرنل جمال عبدالناصر شاہ فاروق کا تخت الٹ کر اقتدار میں آئے اور جب کرنل ناصر صدر بنے تو انہوں نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے لیا اور اس پر فرانس، برطانیہ اور اسرائیل نے مل کر حملہ کردیا تھا مگر آخر فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کو واپس جانا پڑا اور نہر سوئز پر مصر کی ملکیت تسلیم کرلی گئی۔
اس کے تھوڑے عرصے بعد عراق میں انقلاب آیا اور حکومت کا تختہ الٹا دیا گیا اور عراق، برطانیہ امریکا کے اثر سے نکل کر سوویت یونین کے حلقہ اثر میں آگیا مگر خلیج فارس، خلیجِ عمان اور آبنائے ہرمز محفوظ رہی اور یہاں ایران میں شاہ رضا شاہ پہلوی جنہوں نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا تھا بلکہ وہ یہاں امریکا کے سپاہی اور نگران تھے مگر 1979-80ء میں ایران میں انقلاب کے فوراً بعد ایران امریکا تعلقات دوستی سے دشمنی میں بدل گئے۔ شاہ ایران نے آبنائے ہرمز کو تقریباً ایران کی ملکیت سمجھ رکھا تھا اور اُس وقت امریکا برطانیہ کو غالباً اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا مگر جب 22 ستمبر 1980ء سے 20 اگست 1988ء تک عراق ایران جنگ جا ری رہی تو خلیج فارس، خلیجِ عمان اور خصوصاً آبنائے ہرمز کی آبی گذرگاہ کو خطرات کے اندیشے بڑھ گئے۔
اگرچہ اقوام متحدہ کی ایجنسی آئی ایم او کے سمندری ٹریفک کے قوانین موجود ہیں اور اِ ن قوانین کے تحت بین الاقوامی سمندر میں جہازوں کو نہیں روکا جا سکتا یا سمندری ٹریفک میں خلل نہیں ڈالا جا سکتا تھا، مگر نئی صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے 1973ء تا 1982ء کے تحت بھی اقدامات کئے گئے لیکن عراق ایران جنگ کے دوران 1984ء میں خارج جزیرے جو خلیج فارس میں ایرانی ساحل سے 25 کلومیٹر دور آبنائے ہرمز کے شمال مغرب میں 483 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں سے ایرانی تیل کی برآمد بھی ہوتی ہے۔
یہاں عراق نے ایرانی آئل ٹینکروں کو نشانہ بنایا اس کو ٹینکرز وار بھی کہا گیا۔ عراق کے صدر صدام حسین کا خیال تھا کہ اس طرح ایران آبنائے ہرمز کو بند کردے گا اور جس کی وجہ سے یہاں امریکا مداخلت کرے گا اور عراق کو اس سے جنگ میں فائدہ پہنچے گا، مگر ایران نے اپنی جنگی اسٹرٹیجی یہ رکھی کہ جواب میں ایران نے بھی عراقی آئل ٹینکروں کو نشانہ بنایا لیکن آبنائے ہرمز کو بند نہیں ہونے دیا۔ یہ سمندری گزرگاہ عراق ایران جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق بین الاقوامی تجارت کے لئے کھلی رہی۔ آپریشن پرائنگ مائنٹیس (آپریشن پرینگ مانٹس) 18 اپریل 1988ء میں خلیجِ فارس میں ایرانی سمندری حدود میں امریکی فوج کی جانب سے کیا جانے والا حملہ تھا جو ایران کی طرف سے خلیج فارس میں لگائی جانے والی بارودی سرنگوں کے جواب میں کیا گیا تھا جس سے ایک امریکی جہاز کو جزوی نقصان پہنچا تھا، اس لڑائی میں امریکا کے کمانڈر انتھونی لیس، ریمنڈ جی زولر اور جیمس بی پیرکن تھے اور ایران کی جانب سے محمد حسین مالیزایگان تھے۔ اس لڑائی میں امریکا کے 2 فوجی ہلاک اور ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہوا اور ایران کے 56 فوجی جان بحق اور 6 شپ تباہ ہوئے، یوں لڑائی میں امریکا کی برتری رہی۔ ایرانی ایئرلائن فلائٹ 665 کا واقعہ 3 جولائی 1988ء کو پیش آیا، ایرانی ایئرلائن کا ایئربس A300 مسافر طیارہ تہران براستہ بندر عباس دبئی جا رہا تھا جسے امریکی نیوی کے میزائل بردار جہاز سے سطح سے فضا میں مار کرنے والے گائیڈڈ کروز میزائل سے نشانہ بنایا گیا جس سے طیارے میں سوار تمام 290 افراد جان بحق ہوگئے۔ اس طیارے کو خلیجِ فارس میں ایرانی سمندری حدود میں گرایا گیا۔ یہ واقعہ آٹھ سالہ عراق ایران جنگ کے دوران ہی پیش آیا۔ یہ طیارہ آبنائے ہرمز میں جزیرہ قشم کے قریب گرا تھا، اس مسافر طیارے کے گرائے جانے کے بعد امریکی نیوی کی جانب سے یہ کہا گیا کہ انہوں نے یہ کارروائی اپنے دفاع میں کی تھی کیونکہ اُن کو شک تھا کہ اِن پر حملہ کیا جائے گا۔ اس پر ایرانی عوام اور حکومت نے نہایت غم و غصے کا اظہار کیا، پھر معاملہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں 1996ء میں ایران اور امریکا کی حکومتوں کے درمیان طے پایا۔ اگرچہ امریکا نے سرکاری سطح پر ایران سے معافی نہیں مانگی لیکن 61.8 ملین ڈالر کی رقم ہرجانے کے طور پر متاثر ایرانی لواحقین کو دینے پر آمادہ ہوگیا۔ اس کے بعد آبنائے ہرمز میں 8 جنوری 2007ء کو امریکی ایٹمی آبدوز نیور پیورنیوز ایک 300000 ٹن وزنی جاپانی آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی لیکن اس کے بعد کہا گیا کہ اس سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی اس بڑے آئل ٹینکر سے کوئی تیل لیک ہوا۔ 2008ء میں آبنائے ہرمز میں کئی دنوں تک ایرانی اور امریکی افواج کے درمیان ایک شدید نوعیت کا بحران پیدا ہوا جب ایرانی اسپیڈ بوٹز نے امریکی جنگی بحری جہازوں کے گرد چکر لگائے اور ایک دوسرے کے خلاف شدید نوعیت کے بیانات بھی دیئے۔ 29 جون 2008ء ہی کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر محمد علی جعفری نے واضح کردیا کہ اگر امریکا یا اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو ایران آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا اور اس طرح دنیا میں تیل مارکیٹ میں بحران پیدا ہوگا، اس کے بعد اسی طرح کی مبہم دھمکی ایرانی وزیرخارجہ نے بھی دی، اس پر بحرین میں موجود امریکی پانچویں بحری بیڑے کے وائس ایڈمرل کیوین کوسکریف نے کہا کہ اگر ایران کی طرف سے ایسا اقدام کیا گیا تو ہم اس کو جنگ تصور کریں گے اور امریکا ایران کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ دنیا کو سپلائی ہونے والے تیل کے تیسرے حصے کو روک دے۔ 8 جولائی 2008ء کو ایرانی ترجمان علی شیرازی نے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے حوالے سے بتایا کہ صیہونی یہودی امریکا پر زور دے رہے ہیں کہ امریکا ایران پر حملہ کردے اور اگر امریکا نے ایسی حماقت کی تو ایران یہاں ہرمز میں امریکی اور اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنائے گا، اس کے بعد 11 اگست 2008ء ہی میں امریکا نے جاپان کے ساتھ یہاں بہت بڑے پیمانے پر سمندری جنگی مشقیں کیں جن میں 40 امریکی جنگی جہازوں نے حصہ لیا، 20 مارچ 2009ء میں آبنائے ہرمز میں امریکا کے دو جہاز آپس میں ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں 15 امریکی زخمی ہوئے اور تقریباً 25000 ہزار امریکی گیلن ڈیزل سمندر میں بہہ گیا۔ اس کے بعد کے دنوں میں بھی اگر چہ امریکی نیوی یہاں قریب خلیج فارس اور خلیج عمان میں موجود رہی لیکن کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا، مگر ایران کے خلاف امریکی کی جانب سے اقتصادی تجارتی پابندیوں کا سلسلہ بڑھنے لگا۔ 27 دسمبر 2011ء کو اس کے ردعمل میں ایرانی نائب صدر محمد رضا رحیمی نے دھمکی دی کہ ایران آبنائے ہرمز میں تیل کی سپلائی روک دے گا، اگر ایران پر عائد پابندیوں کو محدود نہ کیا گیا۔ اس پر علاقے میں مو جود پانچویں امریکی بحری بیڑے کے ترجمان نے فوراً اس کا جواب دیا کہ امریکی بحری بیڑا اس کے جواب کے لئے تیار ہے۔ بہرحال اس تشویشناک صورتِ حال کے اثرات اُس وقت تیل کی عالمی مارکیٹ پر مرتب ہوئے۔ دسمبر کے بعد بھی یہ صورتِ حال بہتر نہ ہوسکی، 3 جنوری 2012ء کو ایران کے آرمی چیف عطااللہ صالیحی نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ امریکا اپنا بحری بیڑا خلیج فارس سے خلیج عمان لے جائے کیونکہ ایران نے یہاں جنگی مشقیں کرنی ہیں۔ دوسری صورت میں ایران ایکشن لے سکتا ہے، اس پر امریکی نیوی کمانڈر بل نے جواب دیا کہ امریکی طیارہ بردار جہاز سمندر میں انٹرنیشنل واٹر میں مو جود ہے اور اقوام متحدہ کے میری ٹائم کنونشن کے تحت یہاں مو جود رہے گا اور یہاں نگرانی کرتا رہے گا تاکہ یہاں سے تیل کی سپلائی اور جہازوں کی روانی یقینی رہے مگر پھر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں 4 فیصد اضافہ ہوا۔ ایران پر نئی پابندیوں کی وجہ سے 2012ء میں ایرانی تیل کی برآمد میں 50 فیصد کمی اور اس کی وجہ سے کرنسی کی قیمت میں بھی کمی واقع ہوئی لیکن چین نے ایران سے تیل درآمد کیا، اس دوران آبنائے ہرمز کی اسٹرٹیجک اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کو بنیاد بناتے ہوئے ایک اقتصادی نوعیت کی جنگ بھی خصوصاً ایران کے خلاف دکھائی دے رہی تھی۔ ایک جانب ایران کو ایٹمی تحقیق اور مبینہ طور پر ایٹمی اسلحہ کی تیاری سے باز رکھنے کے لئے امریکا، اسرائیل، برطانیہ، فرانس اور دیگر مغربی قوتیں دباؤ ڈال رہی تھیں تو دوسری جانب ایران کی کوشش تھی کہ آبنائے ہرمز پر اپنی روایتی گرفت کو مضبوط کرے۔ جہاں تک تعلق ایران کی روایتی گرفت کا تھا تو پہلی جنگ عظیم کے بعد ایران ایک مضبوط اور مکمل طور پر خودمختار ملک نہیں رہا تھا، جنگ عظیم اوّل کے خاتمے تک پوری دنیا بالکل ہی تبدیل ہوچکی تھی۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خاتمے سے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر عرب ممالک مصر، شام، عراق، سوڈان، اردن، فسلطین، لبنان، سعودی عرب، عمان آج کی متحدہ عرب امارات سب ہی پر برطانیہ، فرانس نے کسی نہ کسی اعتبار سے اپنا تسط قائم کرلیا تھا۔ سوویت یونین میں 1917ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد سوویت یونین نے سینٹرل ایشیا پر اپنی گرفت اور زیادہ مضبوط کرلی تھی، یوں ایران بھی بظاہر آزاد و خودمختار تھا مگر پہلوی خاندان کی حکومت کے آغاز ہی سے ایران بہت سے امور امیں بر طانیہ کے زیراثر تھا، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ایک جانب تو سابق سوویت یونین کی اشتراکی حکومت کیمونزم کو پوری دنیا میں فروغ دے رہی تھی جس سے پوری دنیا میں روایتی بادشاہتیں خودفزدہ تھیں اور اپنے دفاع کے لئے برطانیہ، فرانس اور نئی ابھرنے والی سپرپاور امریکا سے مدد کی طلب گار تھیں، یوں اُس وقت خلیج فارس، خلیج عمان اور آبنائے ہرمز پر مکمل طور پر ان ہی بڑی قوتوں کا کنٹرول تھا اور یہ صورت 1979ء تک ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے تک قائم رہی، اس کے بعد سے اب یہ صورت ہے کہ متحدہ عرب امارت، سعودی عرب اور سلطت عمان کے حوالے سے تو برطانیہ، فرانس، امریکا اور دیگر مغربی اتحادی قوتیں مطمین ہیں لیکن ایران سے بادشاہت کے رخصت ہونے کے بعد ایران ایک خودمختار اور مکمل آزاد ملک کی حیثیت سے علاقے کا ایک مضبوط ملک ہے جس کو مزید مضبوط اور طاقتور ہونے سے روکنے کی پالیسی امریکا اور نیٹو ممالک کی ترجیح ہے۔
جنوری 2012ء میں جب آبنائے ہرمز، خلیج فارس اور خلیجِ عمان کے قریب بحیرہ عرب تک حالات خراب ہورہے تھے اور امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف مزید پابندیاں لگانے اور جنگ کا سا ماحول پیدا کرنے سے ایرانی معیشت کمزور پڑ رہی تھی اور ایرانی کرنسی کی قیمت کم ہوگئی تھی تو 2012ء جنوری ہی کے آخر تک فرانس اور برطانیہ کی جانب سے بھی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی اثاثے منجمد کرنے جیسے اقدامات کے ساتھ برطانیہ نے بھی اپنے جنگی بحری جہاز خلیج فارس، خلیج عمان اور آبنائے ہرمز بھیجنے کا اعلان کردیا، جس کے سبب ایرانی کرنسی کی قیمت میں مزید 12 کی کمی ہوئی۔ جنوری 2012ء ہی میں ایرانی وزیردفاع احمد واحدی نے کہا کہ ایران نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ آبنائے ہرمز بند کردے گا جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران یہاں خلیج فارس کا سب سے زیادہ دفاع کرنے والا ملک ہے اور اگر کسی ایک کی دھمکی سے صورتِ حال بگڑی تو پھر سبھی کو خطرہ ہوگا۔ ایرانی وزیردفاع نے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے دفاع کے اعتبار سے ایران کی اہمیت کا ذکر اس لئے کیا تھا کہ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز پر خشکی یعنی ساحل اور جزائر کے رقبے اور اسی بنیاد پر سمندری رقبہ بھی سب سے زیادہ علاقہ ایران کے پاس ہے۔ 16 جنوری 2012ء کو ایرانی وزیرخارجہ نے تصدیق کی کہ انہیں امریکا کی جانب سے مراسلہ ملا ہے جس میں امریکا نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ایران کی جانب سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے اقدام کو ریڈلائن پار کرنا تصور کرے گا اور اس کا فوری جواب دے گا۔ اس مراسلے کے حوالے سے امریکی جنرل مارٹن ای ڈیمسے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ڈیفنس سیکریٹری نے ٹیکساس میں کہا کہ امریکا اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ 23 جنوری 2012ء کو ایران کی جانب سے خلیج فارس میں آبنائے ہرمز کے بند کئے جانے کی دھمکی پر پوری دنیا میں پروپیگنڈا عروج پر پہنچ گیا اور یوں معلوم ہونے لگا کہ ایران اپنی معیشت اور اپنے ملک کے دفاع کے لئے انتہائی اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یوں وہ ممالک جن کے بحری جہازوں کو ہرمز میں روک دینے کے اندیشے تھے اْن ملکوں نے بھی خلیج فارس میں اپنے جنگی جہاز بھیج دیئے اور امریکا نے مزید جنگی جہاز یہاں پہنچا دیئے۔ 24 جنوری 2012ء کو یورپی یونین نے بھی اپنے بحری جنگی جہاز خلیج فارس میں بھیج دیئے۔ یوں یہاں کسی بڑی جنگ کے اندیشے پیدا ہوگئے لیکن ایران نے یہاں کوئی اشتعال نہیں دکھایا اور بہت صبروتحمل سے کام لیا۔
یہ وہ دور ہے جب امریکا، برطانیہ اور دیگر نیٹو قوتیں مشرق وسطیٰ میں سرگرم عمل تھیں اور اِن کے مقابلے میں روس سنبھلنے کی کامیاب کوششوں میں مصروف تھا، یوکرائن اور روس تنازع بڑھ گیا تھا اور چین مزید اقتصادی قوت حاصل کررہا تھا، اس کے بعد یعنی امریکا میں ایران کے ساتھ مفاہمت کے مباحثے شروع ہوئے اور صدر باراک اوبامہ کے ساتھ برطانیہ سمیت یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھی یہ کوششیں شروع ہوئیں کہ اگر ایران عالمی سطح پر امریکا سمیت اِن اہم ممالک کو یہ یقین اور ضمانت فراہم کردے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے تحت ایٹمی ہتھیار نہیں بنائے گا تو ایران پر عائد اقتصادی اور دیگر پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اس موقع پر اسرائیل کی جانب سے الزامات کو نظرانداز کردیا گیا اور اس دوران خلیج فارس، خلیج عمان اور آبنائے ہرمز میں صورتِ حال قدرے بہتر رہی اور یہاں جنگ کی بحرانی کیفیت تقریباً ختم ہوگئی، پھر 14 جولائی 2015ء کو ویانا میں ایران کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے اعتبار سے تصفیہ اور معاہدہ ہوگیا جو یعنی ”برنامہ جامع اقدام مشترک“ کہلایا، اس معاہدے میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین یعنی ویٹو پارز، برطانیہ، فرانس، امریکا، روس اور چین کے علاوہ جرمنی بشمول یورپی یونین شامل تھے۔ یہ معاہدہ 18 اکتوبر 2015ء سے موثر ہوا یعنی اس پر عملدرآمد شروع ہوگیا، مگر اسرائیل اس کے خلاف تھا اور اِن کا موقف یہ تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار کررہا ہے اس لئے اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کیا جائے مگر معاہدہ ہوگیا، اس معاہدے کے بعد ایران کی کرنسی مستحکم ہونے لگی اور ایران کی معیشت کو قدرے اطمینان نصیب ہوا۔ اب امید یہ تھی کہ ایران پر عائد پابندیوں کے اٹھ جانے سے ایران کے مسائل ختم ہوجائیں گے اور ایران اپنے عوام کو زیادہ بہتر سہولتیں فراہم کرسکے گا جس کی وجہ سے ایران میں ون پارٹی حکومت کو مزید مقبولیت حاصل ہوگی۔
ایران کی جانب سے امریکا کے خلاف رویہ بھی خصوصاً خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے اعتبار سے جارحانہ نہیں رہا بلکہ ایران بہت متوازن انداز میں اپنی خارجہ پالیسی کو آزادانہ حیثیت سے اپنائے ہوئے تھا مگر جب صدر اوبامہ اپنی صدارت کی دوسری مدت پوری کرچکے تو اِن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ صدر امریکا کے بنے تو اُن کا واضح جھکاؤ شروع ہی سے اسرائیل کی جانب تھا، اس کے بعد اُن کے دورِ صدارت کے آغاز ہی سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکا کی جانب سے اظہار تشویش کے طور پر پروپیگنڈا شروع ہوگیا اور باوجود جرمنی، چین، یورپی اور دیگر ملکوں کی مخالفت کے امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والی ایٹمی ڈیل کا معاہدہ واپس لے لیا اور پھر دوبارہ ایران پر پابندیاں عائد کرنی شروع کردیں۔ اس بدعہدی سے حقیقتاً امریکا کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچا۔ اگرچہ جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر ممالک نے بہت کوشش کی کہ صدر ٹرمپ کو قائل کرسکیں کہ ایسے معاہدے روز روز نہیں ہوتے اور اس سطح کے معاہدہ کو توڑنا ایران کے لئے تقریباً ناممکن تھا کیونکہ اس معاہدے میں نہ صرف یورپی یونین شریک تھی بلکہ اقوام متحدہ کے پانچوں ویٹو پاور امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ شریک تھے مگر صدر ٹرمپ نے یہ معاہدہ واپس لے لیا اور پھر اس کے فوراً بعد یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے امریکا اور ایران میں باقاعدہ جنگ ہوجائے گی اور ایک بار پھر خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں کشیدگی بڑھنے لگی، 2018ء میں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ JCPOA سے منحرف ہونے کا فیصلہ کرنے والے تھے تو ایران کی جانب سے دھمکی دی گئی کہ اس کی جانب سے آبنائے ہرمز بند کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کو تیار رہنے کا حکم دیا گیا تھا مگر اس دھمکی پر عملدرآمد نہیں ہوا البتہ ایران کی جانب سے قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کے صحرائی علاقے میں زمین سے زمین پر 100 میل تک مار کرنے والے جدید میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔
اپریل 2019ء میں ایران کے تیل کی برآمد پر پابندیوں کے باوجود کچھ ملکوں کو ایران سے تیل خریدنے کی اجازت دی گئی۔ 13 جون 2019ء کو ایک آئل ٹینکر پر گولہ باری کی گئی جس کا الزام ایران پر عائد کیا گیا اور ایران نے اس سے انکار کیا، اس واقعہ کے بعد جبرالٹر سے خلیج عمان، خلیج فارس اور آبنائے ہرمز تک امریکا، برطانیہ اور فرانس کے جنگی بحری جہاز سمندر میں آگئے اور یہ سلسلہ 2020ء تک جاری رہا۔ مئی 2020ء ہی میں ایران نے ایک میزائل داغا جو فرنڈلی فائرنگ میں اُسی کی ایک شپ کو لگا جس سے 19 فوجی جان بحق ہوگئے۔ 2019ء کے آخر اور 2020ء کے آغاز سے ایران کی جانب سے عراق اور شام میں مداخلت کو بنیاد بناتے ہوئے، صدر ٹرمپ نے یہاں ایران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا اور صدر ٹرمپ کے خصوصی حکم پر عملد در آمد کرتے ہوئے ایران پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی دونوں میزائل حملے میں قتل کر دیئے گئے جس پر ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے امریکی فوج سے انتقام لینے کا اعلان کیا اور امریکا نے اس پر یہاں 4000 امریکی فوج تعینات کر دیئے۔ یہ کشیدہ صورتِ حال 21 جنوری 2021ء تک اپنی شدت کے ساتھ برقرار رہی۔
نومبر 2020ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں جوبائیڈن امریکا کے نئے صدر منتخب ہوئے جو ٹرمپ کی پالیسیوں کے شدید مخالف تھے اور وائٹ ہاؤس میں اپنی صدارت کے آغاز پر ہی انہوں نے ایران سے دوبارہ کو موثر کرنے اور ا س اعتبار سے صورتِ حال کا جائزہ لینے کا اعلان کردیا اور ایران سے کہا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو اسی سطح پر رکھے جس پر معاہدہ ہوا تھا لیکن ایران کی جانب سے جواباً یہ کہا گیا کہ امریکا پہلے معاہدے کے مطابق ایران پر عائد پابندیاں ختم کرے۔ 28 مارچ 2021ء تک امریکا نے ایران پر عائد پابندیاں ختم نہیں کیں۔ اسی روز ایران اور چین کے درمیان اسٹرٹیجک معاہدہ ہوگیا جس کے تحت چین ایران میں آئندہ 25 سال میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
اگرچہ امریکی صدر نے یورپی یونین اور باقی ویٹو پاورز کی اُس خواہش کا احترام کیا ہے جس کے تحت جرمنی سمیت اِن ملکوں نے پہلے صدر ٹرمپ سے گزارش کی تھی کہ جیسے اہم اور بڑے بین الاقوامی معاہدے کو واپس نہ لیا جائے لیکن صدرٹرمپ نے اسرائیل کے دباؤ کی وجہ سے یہ معاہدہ واپس لیا تھا اور اب اگر امریکا کے صدر جوبائیڈن اپنے بیان کے مطابق مستقبل قریب میں واقعی معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ایران پر عائد پابندیاں فوراً اٹھا لیتے تو شاید ایران مذاکرات کی میز پر کچھ لو کچھ دو کی پوزیشن پر آسکتا تھا مگر اب چین سے معاہدے کے بعد صورتِ حال مختلف ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ ایران جنوبی کوریا اور اسرائیل کی طرح غیراعلانیہ ایٹمی قوت بن جائے، یعنی وہ بھی اسرائیل کی طرح ایٹمی ہتھیاروں کے رکھنے سے انکار تو کرے لیکن اْس کے پاس بھی اسرائیل کی طرح ایٹمی ہتھیار ہوں، اسی صورت میں آبنائے ہرمز دنیا کے لئے خطرے کی ایک لکیر بن سکتی ہے، ایک ایسا خطرہ جو پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔