آئندہ پیٹرول اسٹیشن کی جگہ ایسے بیٹری اسٹیشن قائم ہوجائیں گے، جہاں پیٹرول ڈلوانے کے بجائے آپ بیٹری کے پانی کو تبدیل کیا کریں گے، ان کو ”فلوبیٹریز“ کا نام دیا گیا ہے اور یہ طریقہ جامعہ پروڈیو کے پروفیسر نے ایجاد کیا ہے، برقی موٹر گاڑیوں کی قیمت کا قریباً 40 فیصد بیٹریوں پر مشتمل ہے، لہٰذا اب کم قیمت اور زیادہ طاقتور بیٹریاں بنانے پر زور دیا جارہا ہے
ضمیر آفاقی
دنیا بھر کے ممالک اپنے عوام کو سہولتیں پہنچانے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں فراہم کرنے کے ساتھ ماحول دوست اقدامات کرنے کے لئے صرف دعاؤں پر تکیہ کرکے نہیں بیٹھ جاتے، بلکہ دی گئی خداداد صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہیں، تحقیق اور جستجو کے ”میدانوں میں گھوڑے“ دوڑاتے ہیں، جس کا نتیجہ آج ہمارا طرز رہن سہن ہے، جتنی سہولتوں سے ہم مستفید ہورہے ہیں، یہ انہی سائنٹیفک صوفیوں (سائنس دانوں) کی مرہون منت ہیں، جنہوں نے قدرت کے رموز کو ناصرف سمجھنے کے لئے جدوجہد کی، بلکہ قدرتی قوانین کے مطابق آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔ یوں تو دنیا بھر میں ہر روز نت نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ ہمارے ہاں تو شاید ادراک ہی نہیں، کیونکہ ہم نے سارے کام قدرت کے کھاتے میں ڈال رکھے ہیں۔ کبھی کسی نے کہا تھا کہ ”محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی“، آج کی ترقی کو دیکھتے ہوئے خود ”حیرت بھی حیرت زدہ“ ہے، جدید علوم سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی کے انقلابات ارض، خلائی اور فلکیاتی ماہرین کی تحقیق و تجربات ہر روز حیرت کو حیرت زدہ کررہے ہیں۔
مستقبل میں ہمیں کیا کچھ دیکھنا پڑے گا اس کی چند جھلکیاں۔ آپ اپنے موبائل فون کے ذریعے اپنے پیغامات کو خوشبو اور ذائقہ سے لبریز کرکے بھیج سکیں گے، بلکہ اپنے ہاتھوں کا لمس بھی اس میں شامل کرسکیں گے۔ برطانیہ میں ماہرین کو اس سمت میں کامیابی ہوئی اور ان کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فون سے یہ ممکن ہوسکے گا۔ فضائی سفر کرتے ہوئے ایک ٹائم زون سے دوسرے ٹائم زون جانے سے بہت سے لوگوں کی جیٹ لاگ کے باعث طبیعت گراں ہوجاتی ہے، جس کا علاج طبی ماہرین نے اسٹیرائیڈ ہارمونز سے تلاش کرلیا ہے، اب مستقبل میں اس پریشانی سے بھی چھٹکارا مل سکے گا۔ تائیوان میں طبی ماہرین نے کیلشیم، فاسفورس اور دیگر اجزا سے ایک پیسٹ تیار کیا ہے، اس کے استعمال سے دانتوں کی حساسیت دُور ہونے کے ساتھ ان کی محفوظ تہہ انیمل کی تعمیرنو بھی ہوسکے گی۔ ایک ننھا منھا آلہ بہرے افراد کی زبان کے ساتھ منسلک ہوگا، جہاں سے وہ بلیو ٹوتھ ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے دماغ کو سننے کے سگنل بھیج سکے گا، اس طرح بہرے افراد سن سکیں گے۔ اور یہ کہ ڈارک چاکلیٹ دل کی بیماریوں اور فالج سے بچاؤ کے ساتھ یادداشت بہتر بنانے کے لئے بھی اہم ہے۔ اس چاکلیٹ میں موجود فلیوانول نامی مادّہ یہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آنے والے 10 برسوں میں دُنیا پوری طرح سے تبدیل ہوجائے گی، آج چلنے والی صنعتوں میں سے 70 فیصد سے 90 بند ہوجائیں گی، اوبر صرف ایک سافٹ ویئر ہے، اپنی ایک بھی کار نہ ہونے کے باوجود وہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے۔ ایئر بی این بی دُنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے، حالانکہ ان کے پاس اپنا کوئی ہوٹل نہیں، پیٹیم، اولا ٹیکس، اویو کمرے جیسے بہت ساری مثالوں میں ہیں، اب امریکا میں نوجوان وکلا کے لئے کوئی کام باقی نہیں، کیونکہ آئی بی ایم واٹسن سافٹ ویئر ایک لمحے میں بہتر قانونی مشورے دیتا ہے۔ اگلے 10 سال میں 90 فیصد امریکی وکیل بے روزگار ہوجائیں گے، جو 10 فیصد بچ جائیں گے وہ سپر ماہر ہوں گے، واٹسن نامی سافٹ ویئر انسانوں کے مقابلے میں کینسر کی تشخیص 4 گنا زیادہ درست طریقے سے انجام دیتا ہے، 2030ء تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہوں گے۔ اگلے 10 سال میں 90 فیصد کاریں پوری دُنیا کی سڑکوں سے غائب ہوجائیں گی، جو بچ جائیں گی، وہ یا تو الیکٹرک کاریں ہوں گی یا ہائبرڈ، سڑکیں خالی ہوں گی۔ کچھ ہی لمحوں میں ڈرائیور لیس گاڑی آپ کے دروازے پر کھڑی ہوگی، اگر آپ اسے کسی کے ساتھ شیئر کر لیتے ہیں تو وہ سواری آپ کو موٹرسائیکل سے بھی سستی ہوگی، کاروں کے ڈرائیور لیس ہونے کی وجہ سے 99 فیصد حادثات ختم ہوجائیں گے، زمین پر ڈرائیور جیسا کوئی روزگار نہیں چھوڑا جائے گا، جب 90 فیصد کاریں شہروں اور سڑکوں سے غائب ہوجائیں گی تو ٹریفک اور پارکنگ جیسے مسائل خودبخود ختم ہوجائیں گے، کیونکہ ایک کار 20 کاروں کے برابر ہوگی، کرنسی نوٹ کو پہلے پلاسٹک منی (اے ٹی ایم کارڈ) نے تبدیل کیا تھا، اب یہ ڈیجیٹل ہوگئی ہے۔
اس وقت ٹرانسپورٹ پوری دنیا کے انسانوں کی بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ اگلے چند برسوں میں دنیا میں کہیں بھی کوئی نئی پیٹرول یا ڈیزل کی موٹر گاڑیاں، بسیں، یا ٹرک فروخت نہیں کئے جائیں گے۔ پورے خطے کا نظام نقل و حمل برقی گاڑیوں پر منتقل ہوجائے گا، نتیجتاً تیل کی قیمتوں میں شدید کمی پیٹرولیم کی صنعت کی تباہی کا باعث بنے گی، ساتھ ہی موٹر گاڑیاں اور بسیں بنانے کی وہ صنعتیں تباہ ہوجائیں گی جنہوں نے اس جدید صنعتی انقلاب کو اختیار کرنے میں دیر کی۔ خام تیل کی قیمت 25 ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہوجائے گی۔ پیٹرول اسٹیشنوں کو تلاش کرنا مشکل ہوجائے گا اور لوگ اپنی گاڑیوں کے مقابلے میں کرائے کی گاڑیوں پر سفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔ موٹرگاڑیاں بنیادی طور پر ”بھاگتے ہوئے کمپیوٹر“ بن جائیں گی۔ اس قدر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیاں موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی بقا کے لئے خطرہ بن رہی ہیں، کیونکہ انہیں اب اس کمپنی کے مقابلے میں برقی گاڑیاں تیار کرنے پر توجہ دینی پڑے گی۔ اس طرح تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک دوبارہ غربت کے اندھیروں میں ڈوب جائیں گے، جیسے وہ 1950ء میں تھے۔ اسی دوڑ کی اہم ترین پیش رفت نئی قسم کی بیٹری ٹیکنالوجی ہے، جس کی بدولت گاڑیاں طویل فاصلے طے کرسکتی ہیں اور بیٹری کو بار بار چارج نہیں کرنا پڑتا۔
ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اب بیٹریوں کو دو منٹ میں چارج کیا جاسکتا ہے۔ یہ بیٹری کے اندر کا الیکٹرو لائٹ فوری تبدیل کرکے کیا جاتا ہے، یعنی آئندہ پیٹرول اسٹیشن کی جگہ ایسے بیٹری اسٹیشن قائم ہوجائیں گے، جہاں پیٹرول ڈلوانے کے بجائے آپ بیٹری کے پانی کو تبدیل کیا کریں گے، ان کو ”فلوبیٹریز“ کا نام دیا گیا ہے اور یہ طریقہ جامعہ پروڈیو کے پروفیسر نے ایجاد کیا ہے۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمت کا قریباً 40 فیصد بیٹریوں پر مشتمل ہے، لہٰذا اب کم قیمت اور زیادہ طاقتور بیٹریاں بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی اطلاعات کے مطابق ان بیٹریوں سے بجلی کی پیداوار فی کلو واٹ گھنٹے کی قیمت 2012ء میں 542 ڈالر سے کم ہو کر اب صرف 139 ڈالر ہوگئی ہے اور 2020ء تک 100 ڈالر فی کلو واٹ گھنٹہ تک پہنچنے کی اُمید ہے۔ برقی موٹرگاڑیاں پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں شاندار کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں، جو سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ منٹوں میں طے کرسکتی ہیں اور بیٹری ایک ہی چارج میں قریباً 350 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتی ہے۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمتیں کافی تیزی سے کم ہورہی ہیں۔ 2022ء تک سب سے کم قیمت برقی موٹر گاڑی کی قیمت 20,000 امریکی ڈالر تک ہوجائے گی۔ اس کے بعد پیٹرول کی گاڑیاں جلد ہی ناپید ہوجائیں گی۔ چند سال تک تمام نئی چار پہیوں پر چلتی گاڑیاں عالمی سطح پر بجلی سے چلیں گی، چین اور بھارت جدت کی اس نئی لہر کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ بھارت کا منصوبہ ہے کہ 2032ء تک تمام پیٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں ختم کردی جائیں۔ بھارت میں فوسل تیل سے چلنے والی گاڑیوں اور تمام پیٹرول و ڈیزل کاروں پر مرحلہ وار پابندی عائد کرنے کا عمل تیز کیا جارہا ہے۔
چین 2025ء تک 70 لاکھ برقی گاڑیوں کی سالانہ پیداوار کا ارادہ رکھتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی یا سائنسی ترقی میں کمال حاصل کرنے والے ممالک ہی آئندہ دنیا کی امامت کا فریضہ بھی سرانجام دیں گے اور ہم جیسی سوچوں کے حامل ملک دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی خواہشوں کو پروان چڑھانے کے خواب ہی دیکھتے رہ جائیں گے، علامہ اقبالؒ نے تو کہا تھا کہ ؎
”عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی“
ہمیں کہیں تھوڑی دیر کے لئے رک کر اپنے اعمال پر نظر ڈال لینی چاہئے کہ ہم ”معاون ہیں یا رکاوٹ“… کسی دانشور نے جہنم کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”رک جانا“ یعنی جو قوم ارتقائی سفر میں دنیا کا مقابلہ نہ کرسکے اور ایک ہی جگہ رک جائے۔ دنیا انسانی زندگی کو بہتر صحت مند اور لمبا کرنے کی طرف گامزن ہے جب کہ ہمارے ہاں زندگی سانس لینے میں بھی دشواری محسوس کررہی ہے۔