حکومت نے قانون توڑ کر اشرافیہ کو مراعات دیں، غریبوں کا استحصال کیا، ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
فوڈ آئٹمز نیٹ امپورٹ بن چکے ہیں، تجارتی خسارہ 12 سے 15 ارب ڈالر تباہی کا پیش خیمہ ہے، میاں زاہد حسین
معاشی ابتری کی وجہ سے ایٹمی اثاثہ جات کمپرومائز ہوسکتا ہے، اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے زیرنگرانی کام کرے گا، ڈاکٹر شاہدہ وزارت
سلطنت عثمانیہ کی طرح پاکستان کی معیشت اغیار کے ہاتھوں یرغمال ہے، نصرت مرزا
رپورٹ: سید زین العابدین
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام ویبنار کا اہتمام کیا گیا۔ ویبنار سے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی، معروف صنعتکار و ماہر معیشت میاں زاہد حسین، ڈاکٹر شاہدہ وزارت اور رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے خطاب کیا۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی 1980ء سے 2018ء تک اوسط گروتھ ریٹ 4.7 فیصد سالانہ رہا لیکن اس حکومت میں 2.5 فیصد سالانہ تک گر گیا ہے۔ افراطِ زر پہلے سے دوگنا ہوچکا ہے، عموماً قرضہ بیرو میٹر ہوتا ہے۔ مجموعی قرضے میں اس حکومت نے 20605 ارب کا اضافہ کردیا ہے۔ ن لیگ نے 13440 ارب روپے کا قرضہ لیا تھا، مقامی قرضہ 2015ء تک 20 ہزار ارب روپے سے کم تھا جو بڑھ کر 50 ہزار ارب روپے ہوگیا ہے، برآمدات بڑھ کر 32 ارب ڈالر تک ہوئیں تو درآمدات میں دوگنا اضافہ ہوا۔ احساس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو بھکاری بنا کر معیشت ٹھیک نہیں کی جاسکتی، عوام پر بلواسطہ ٹیکس لگانا بند کریں، پیٹرولیم لیوی صفر، جنرل سیلز ٹیکس 17 سے کم کرکے 5 فیصد تک لے آئیں، سرکولر ڈیٹ کو ختم کریں، پیداواری لاگت کم کریں تو صنعت کو فروغ ملے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، بدقسمتی سے متوسط اور غریب طبقے کے بجائے امیروں کے لئے ایمنسٹی اسکیم لائی گئی جس سے معیشت کو تقریباً اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، اسٹیٹ بینک کے ایک سابق گورنر کہتے تھے ہم پاکستانی حکومت کے سامنے خودمختار مگر آئی ایم ایف کے سامنے بے بس ہیں، عمران خان اپنی دی گئی ایمنسٹی سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کے خلاف ہی کارروائی کرلیں تو اس سے تقریباً 900 ارب روپے مل سکتے ہیں، موجودہ حالات میں پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے لیکن بہت سے ایسے عوامل ہیں جس کے باعث ہم ڈیفالٹر نہیں ہوسکتے۔
میاں زاہد حسین (معروف صنعتکار و ماہر معیشت)
معیشت میں شدید بحران اور خرابی آ چکی ہے، ارباب اختیار میں یکسوئی اور صلاحیت کا فقدان ہے، ملکی اقتصادیات کھلونا بن چکی ہے، دوست ممالک بھی شرائط پر قرضہ دے رہے ہیں کیونکہ کہتے ہیں کہ آپ سرمایہ ضائع کر دیتے ہیں، وسائل کا زیاں خطرناک رحجان ہے، برصغیر کی غلامی کی اہم وجہ بھی یہی تھی جو پاکستان میں ہورہا ہے، 45 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو پورا کرنا ایک مسئلہ ہے، بیرون ملک پاکستانی 30 سے 32 ڈالر ارب ڈالر بھیجتے ہیں جو ہماری معیشت کے لئے آکسیجن کا کام کرتے ہیں، 12 سے 15 ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے، 12 ارب ڈالر کے پرانے قرضے واپس کرنا ہیں، 75 ارب ڈالر کی برآمد کے امکانات ہونے کے باوجود 30 ارب ڈالر کی برآمدات لمحہ فکریہ ہے۔کُل ایکسپورٹ کا تقریباً نصف 12 ارب ڈالر امریکا کو جبکہ بقیہ یورپی ممالک کو ہوتی ہے۔ اس لئے امریکا کو ناراض کئے بغیر ہمیں اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔ گورننس کے مسائل زیادہ ہیں، گیس کی قلت کے باعث صنعتکار پریشان ہیں، برآمدی آرڈر پورے کرنا مشکل ہورہا ہے، 600 سے 700 ارب ڈالر کی بجلی چوری ہورہی ہے، اس کا سدباب تو کیا جاسکتا ہے، صرف منصوبہ بندی درکار ہے، ڈھائی ٹریلین ڈالر تک گردشی قرضہ پہنچ چکا ہے، پڑوسی ممالک سے بجلی کی قیمتیں دوگنی ہیں، پیداواری لاگت بہت بڑھ چکی ہے، لیبر مہنگی ہے، عالمی مسابقت کا بھی سامنا ہے، ان حالات میں صنعت کا فروغ کیسے ہوسکتا ہے۔ 700 ارب روپے کی گیس کا نقصان ہورہا ہے، 14 وسیلز کی امپورٹ کی گنجائش تھی لیکن 12 وسیلز کی گئی، گیس کی درآمد میں تاخیر نے پہلے سے تباہ معیشت پر مزید بوجھ ڈالا، بعد میں 30 ڈالر کی گیس خریدی گئی جبکہ 6 ڈالر میں لی جاسکتی تھی۔ سرکاری اداروں کے نقصان کے لئے چار ارب ڈالر سرمایہ ضائع ہورہا ہے، پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے، واپڈا کے لئے کوئی حکمت عملی بنانا چاہئے، حکومت 60 ارب ڈالر کی سالانہ خریداری کرتی ہے جس میں 15 ارب ڈالر کی بدعنوانی ہوئی ہے، اس کو تو روک سکتے ہیں، بھارت گزشتہ تیس سال سے آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کرچکا ہے، 2400 ارب کی معیشت 263 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں، تامل ناڈو کی آبادی پاکستان کی آبادی سے ایک تہائی ہے، جی ڈی پی ہم سے زیادہ ہے، مہاراشٹر کی آبادی ہم سے تقریباً نصف ہے مگر جی ڈی پی پاکستان سے زیادہ ہے، صنعت کو فروغ دیئے بغیر معاشی ترقی ناممکن ہے، آئی ٹی کے شعبے میں بہت مواقع ہیں لیکن یہ اہداف کیسے حاصل ہوں، اب متحدہ عرب امارات سے مہنگا خرچہ لینے کی بات کی جارہی ہے، بیروزگاری 5 فیصد، مہنگائی 18 فیصد کیوں ہے، غربت 39 فیصدسے زائد ہوچکی ہے، زراعت کو فروغ، کاروبار آسان، ایف بی آر کو کاروبار دوست بنایا جائے، فوڈ آئٹم میں نیٹ امپورٹ بن چکے ہیں، یہاں تک کہ Cotton بھی باہر سے لینا پڑا، گندم، چینی یوکرائن سے خریدنا پڑی، ملکی پیداوار پر توجہ نہ دینے سے ایسے حالات پیدا ہوئے، انتظامی ناکامی ہے صلاحیت کا فقدان ہے منصوبہ بندی نہیں آتی نہ ہی مشورے اور تجاویز پر عمل درآمد ہورہا ہے۔
ڈاکٹر شاہدہ وزارت
شاہد صاحب کی بات سے اتفاق نہیں ہے کہ آئی ایم ایف سے تعطل رہا، پاکستان میں سب سے زیادہ شرح سود ہے، ڈی ویلیوایشن ایک اہم مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے، حکومت کی معاشی پالیسی پر شدید تحفظات ہیں، ایک سسٹم کے تحت پاکستان کو دیوالیہ ہونے کی طرف لے جایا جارہا ہے، آئی ایم ایف میں جو ملک بھی جاتا ہے تو اس کا گروتھ ریٹ کم ہوجاتا ہے، ڈی ویلیوایشن کے باعث آئی ایم ایف کہتا ہے کہ انٹرسٹ ریٹ بڑھائیں، تعلیم اور صحت پر کٹوتی ہوتی ہے، اس کی وجہ سے غریبوں پر دباؤ بڑھتا ہے جس کے باعث جرائم بڑھنے لگتے ہیں، موجودہ محصولات میں سے 86 فیصد خسارہ میں جارہا ہے، ٹھتیان کمپنی کے ہرجانہ کے باعث 28 ملین ڈالر ادا کرنا پڑے، آئی ایم ایف کے دباؤ پر ڈپلومیٹک اکاؤنٹ، کمرشل اکاؤنٹ میں منتقل ہوا، جس سے انہوں نے ہرجانہ کی رقم وصول کرلی، بلوچستان کے کاپر کے ذخائر سے متعلق اس کیس کا فیصلہ 2013ء میں سپریم کورٹ نے دیا تھا اور معاہدہ ختم کرنے کا حکم دیا تھا، اس کمپنی کا کُل ہرجانہ 5.9 بلین ڈالر ہے۔ وزیراعظم پس پردہ اسی کمپنی کو دوبارہ ٹھیکہ دینے کے لئے مذاکرات کررہے ہیں، اس کے علاوہ برطانوی حکومت نے ملک ریاض کے خلاف قانونی کارروائی کی اور 19 ملین پاؤنڈ پاکستان کو ادا کرنے کا راستہ ہموار کیا لیکن حکومت نے ملک ریاض کو اس میں ریلیف دے دیا، اس پر نیب بھی خاموش اور سپریم کورٹ بھی چپ ہے۔ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر دی جارہی ہے حالانکہ وفاقی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا، امریکا مختلف ذرائع سے ہمارے خلاف اقدامات کررہا ہے، کونڈالیزا رائس کہہ چکی تھیں کہ ہم پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کے خلاف منصوبہ بندی کررہے ہیں، سی پیک کو نشانہ بنایا جارہا ہے، امریکا ہمارے چھوٹے صوبوں سے براہ راست رابطہ بڑھا رہا ہے، اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے زیرنگرانی گیا تو ہمارے عسکری اداروں کے اکاؤنٹس اسٹیٹ بینک سے ختم کرکے کمرشل بینکوں میں کھول دیئے جائیں گے، یاد رہے کہ آئی ایم ایف کی سیکنڈ ہیڈ بھارتی نژاد ہیں، جو ہمارے لئے خطرہ ہے، اسٹیٹ بیک کے گورنر کی تنخواہ ایک کروڑ 50 لاکھ مراعات کے ساتھ ڈیڑھ کروڑ روپے ماہانہ ہوگی جبکہ تین ڈپٹی گورنر بھی بھاری تنخواہ اور مراعات لیں گے، یہ سب معاشی بحران کا شکار ملک میں ہورہا ہے، سکوک بانڈز سے حاصل ہونے والے سرمایہ پر ہر چار مہینے بعد ادائیگی کرنا ہوگا، موٹرویز نوازشریف حکومت نے گروی رکھے تھے، ایئرپورٹس اور اہم ہوٹلز موجودہ حکومت نے گروی کردیئے ہیں، سکوک بانڈز میں سرمایہ کاری امریکی کررہے ہیں، ہمارے بڑھتے قرضے کے باعث ایٹمی اثاثہ جات کمپرومائز ہوسکتے ہیں، ڈیفالٹر کے باعث سری لنکا کا پورٹ چین کے پاس چلا گیا، تباہی کا سامان موجود ہے، آنکھیں بند کرنے کا فائدہ نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
نصرت مرزا (چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل) 1923ء میں سلطنت عثمانیہ کا معاشی نظام اتحادی افواج کے کنٹرول میں جانے کے بعد وہ فوج، پولیس انتظامیہ کو تنخواہ نہیں دے سکتے تھے، ان کے اکاؤنٹ پر کنٹرول ختم ہوچکے تھے، 2010ء میں جاپان کے شہنشاہ نے چین کے تین دورے کئے تاکہ ڈالر کو ختم کرکے مقامی کرنسی میں لین دین ہوسکے، پیٹرو ڈالر کے سسٹم کو روکنے کی کوشش کی تو امریکا نے کہا کہ آپ پر دوبارہ ایٹمی حملہ کردیں گے، فروری 2011ء میں فوکا شیما سانحہ امریکا کی کارروائی تھی، جاپان نے اُس وقت کہا تھا کہ ہمارا معاشی نظام امریکا کے کنٹرول میں آچکا ہے اور اب اسی صورتِ حال کا پاکستان کو سامنا ہے۔ 2021ء میں پاکستان کے اسٹیٹ بینک پر آئی ایم ایف کا کنٹرول ہوچکا ہے، بل پاس ہونے کی صورت میں قانون بن جائے گا لیکن ہمارے بیشتر معاشی ماہرین نے اسے مسترد کردیا ہے۔
سید سمیع اللہ (تجزیہ کار)
تین ایسے شعبے ہیں جو معاشی بحران پر اثرانداز ہورہے ہیں، انفرادی طور پر اسٹریٹ کرائم کا ریٹ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، برین ڈرین کا ہونا، مایوسی بڑھنا بھی لمحہ فکریہ ہے، غریبوں کے چولہے بجھ رہے ہیں، امیروں کے اکاؤنٹ بڑھ رہے ہیں، ٹرائبل ایریا کے لوگ حکومت اور عدلیہ پر اعتبار نہیں کررہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ پر بھی اعتبار اٹھ سکتا ہے، انڈسٹری یہاں سے جارہی ہے، ایسی صورتِ حال میں ہمارے اندر پروکیسز کا خطرہ ہے دشمن استعمال کرسکتا ہے۔
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام ویبنار معاشی تباہی کے اسباب۔۔ حل اور اقدامات
RELATED ARTICLES