خودمختار معاشی افغانستان ہی امن کا ضامن ہوسکتا ہے، ڈاکٹر اشفاق حسن، طالبان کا رویہ مثبت ہے لیکن داعش ایک چیلنج ہے، شاہد امین، طالبان کا جدید چہرہ سامنے آ رہا ہے، ڈاکٹر محمد علی شیخ، طالبان کیلئے داعش بڑا چیلنج ہوسکتے ہیں، ڈاکٹر سید محمد علی، طالبان نے سیاسی اور ڈپلومیٹک طور پر خود کو گروم کیا ہے، عظیم ایم میاں، داعش کی موجودگی امریکی منصوبہ بندی کی دلیل ہے، نصرت مرزا
رپورٹ: سید زین العابدین
کراچی میں رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام افغانستان میں طالبان کی فتح اور خطے میں امن و استحکام کے مواقع کے موضوع پر ویبنار کا انعقاد کیا گیا۔ ویبنار میں ڈاکٹر اشفاق حسن، سینئر سفارتکار شاہد امین، سابق وائس چانسلر سندھ مدرستہ الاسلام ڈاکٹر محمد علی شیخ، برطانیہ سے ڈاکٹر محمد علی، امریکا سے سینئر صحافی وتجزیہ کار عظیم ایم میاں اور رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ ویبنار میں نظامت کے فرائض بسمہ مرزا نے ادا کیا۔ ویبنار کے آغاز میں بسمہ مرزا نے کہا کہ افغانستان کی نئی صورتِ حال طالبان کیلئے جس قدر اہم ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر حکومت کی پوزیشن میں آ گئے ہیں، ان کا رویہ ثابت کرے گا کہ وہ کس قدر تیاری سے آئے ہیں کیونکہ حکمرانی کے جدید تقاضوں پر عبور حاصل کئے بغیر ان کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں، اب تک ان کا رویہ خاصا مثبت رہا ہے جو دُنیا کے لئے قابل قبول نظر آرہا ہے، اسی طرح خطے کے امن و استحکام کیلئے بھی ایک اچھا موقع ہے، خطے کے ملکوں کو طالبان کی مدد کیلئے آگے آنا ہوگا، ساتھ ہی امریکا اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان کی تعمیر و ترقی کا پروگرام بھی پیش کرنا ہوگا کیونکہ جو ملک گزشتہ چار دہائی سے جنگ کا شکار ہو اب امن کے قیام کے بعد اس کے انفرااسٹرکچر اور معاشی بحالی کے حوالے سے کام ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن: دنیا کی نظریں اس وقت طالبان کے ساتھ پاکستان پر ہے، اس وقت مواقع کی بات کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ دنیا یہ سمجھے گی کہ افغانستان کے مسائل میں کلیدی کردار ہمارا ہے، پاکستان جس طرح چاہتا ہے وہاں کی صورتِ حال کو تبدیل کر دیتا ہے، اس میں تھوڑا محتاط ہونا چاہئے، افغانستان کو امن و استحکام کے ساتھ معاشی مسائل کا سامنا ہوگا، کیونکہ کس کے پاس اتنا ہیوی پرس ہے جو ان کے مالی بوجھ کو برداشت کرے، سرکاری ملازمین اور دیگر اخراجات کی مد میں سرمایہ دے، امریکا گزشتہ کئی سال سے بجٹ سپورٹ فنڈز کے ذریعے مالی مدد کرتا رہا ہے، کیا چین کے پاس اتنا ہیوی پرس ہے جو ان اخراجات کو برداشت کرسکے، آئی ایم ایف نے حالیہ دنوں میں پاکستان کیلئے 2.75 بلین ڈالر کی قسط منظور کی ہے لیکن 450 ملین ڈالر افغانستان کیلئے منظور نہیں کیا، ریجنل ممالک کو اس حوالے سے کچھ کرنا ہوگا۔ سارک تنظیم کے ذڑیعے ایسا ہوسکتا تھا مگر 2012ء میں بھارت نے سارک کو ڈیڈ کردیا، اس کے ساتھ افغان کوآپریٹو تنظیم بھی بنی تھی اسی طرح سائیکو جیسی تنظیم ہے جس میں چین، پاکستان، افغانستان ہے۔ اس طرح اس ریجنل تنظیم کے ذریعے افغانستان کے مسائل کو ایڈریس کیا جاسکتا ہے، اس تنظیم کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں بنائیں کیونکہ افغانستان سینٹرل ایشیا کیلئے گیٹ وے ہے، لیکن یہ اس وقت ہوگا جب امن و استحکام ہوگا۔ دوسری جانب ٹریلین ڈالر خرچ کرنے والوں کے بھی تو کوئی مفادات ہوں گے، انہوں نے اتنا سرمایہ خطے کے ملکوں کے فائدے کیلئے تو نہیں کیا تھا، وہ اسے ڈس ٹریک کرنے کی کوشش کریں گے، سول وار کروانے کی کوشش ہوسکتی ہے، اس سے بچنا ہوگا، افغان اور پاکستانی عوام میں قریبی تعلقات نہیں بن سکے بلکہ بہت دوری ہے، تحریک طالبان پاکستان کا مسئلہ بھی ہمارے عوام کے لئے اہم ہے۔
شاہد امین (سینئر سفارتکار): طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد جو ان کے لئے مواقع ہیں، کیا وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ ایک اہم بات ہوگی، کم از کم ایک ماہ تو ان کے رویوں کو دیکھنے میں لگ جائیگا، امن اور استحکام کا معاملہ طالبان اور مغرب کے رویوں پر ہے، گزشتہ 40 سال سے افغانستان جنگ میں گھیرا رہا ہے، طالبان نے گوریلا وار میں تو اپنا لوہا منوا لیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ حکومت کس انداز سے کرتے ہیں، دہشت گردی کے آپریشن کو کس طرح ختم کرتے ہیں، جیسا کہ اب تک کے اقدامات سے لگ رہا ہے کہ وہ 2000 کی دہائی سے مختلف ہیں کیونکہ عورتوں کے کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے سے متعلق انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے، میڈیا کو نارمل طریقے سے کام کرنے کی اجازت ہے، داڑھی نہ رکھنے پر کسی پر سختی نہیں کررہے، دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر مجبور ہوئے ہیں کیونکہ وہ افغانستان کے تمام گروپس کو ساتھ ملانے کی بات کررہے ہیں، طالبان میں صرف پختون نہیں ہیں ان کے ساتھ ازبک اور تاجک جہادی بھی ہیں جبکہ شمالی اتحاد اور ہزارہ شیعہ سے ان کا ماضی میں شدید ٹکراؤ رہا ہے لیکن اب وہ ان تمام گروپس سے بات چیت کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ طالبان کی حکومت کا عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا بھی اہم ہوگا، 1996ء میں پاکستان نے سب سے پہلے انہیں تسلیم کیا تھا، سعودی عرب اور دیگر ملکوں نے بعد میں طالبان کو تسلیم کیا تھا، ایک اور اہم مسئلہ معاشی ہے کیونکہ یہ لینڈ لاک کنٹری ہے، غریب ملک ہے، اب تک بیرونی امداد کے سہارے ہی گزارا کرتا ہا ہے، اب انہیں معاشی طور پر خود کو مضبوط کرنا ہوگا، اس میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک معاشی حوالے سے خاصی مدد کرسکتے ہیں، سب ملک کر کام کریں تو خطے میں امن و استحکام کا ایک نیا دور شروع ہوجائے گا۔ پاکستان کے سا تھ بارڈر ملا ہوا ہے، طالبان پاکستان کے مدرسے سے پڑھے ہوئے ہیں پھر پختون ہیں تو اس طرح پاکستان کا اثرورسوخ ہے دوسرے ملک کی مناسبت پاکستان زیادہ اہم کردار کرسکتا ہے، یہ بات بھی درست نہیں کہ جیسا کہ شرف غنی نے کہا کہ پاکستان کی وجہ سے طالبان نے ٹیک اوور کیا۔ مستقبل طالبان کے رویے پر منحصر ہے، اگر وہ دنیا کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے اندر تبدیلی لائیں گے تو معاملات بہتر ہوتے جائیں گے، جیسا کہ ان کے ترجمان اور دیگر لیڈر مغرب سے انگریزی زبان میں بات کررہے ہیں، یہ بڑی تبدیلی ہے، امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بھی نرم رویہ اختیار کرنا ہوگا، طالبان نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے صاف کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے بھی ان کی پالیسی پاکستانی سوچ کے مطابق لگ رہی ہے، اگر ایسے ہی معاملات چلے تو امن و استحکام کا نیا دور شروع ہوگا، البتہ داعش کے حوالے سے خدشات موجود ہیں، یہ طالبان کیلئے بھی ایک چیلنج ہوگا۔
ڈاکٹر محمد علی شیخ (سابق وائس چانسلر سندھ مدرستہ الاسلام): طالبان اسلامی نظامِ حکومت کا قیام چاہتے ہیں، اگرچہ اس وقت ان کا رویہ 96 سے 2001ء کے طرز حکومت سے مختلف لگ رہا ہے مگر وہ اسلام کی شرعی حکومت ہی قائم کرنا چاہتے ہیں جبکہ مغرب کو عورتوں کی آزادی، انسانی حقوق، تعلیم کے حوالے سے شدید خدشات ہیں، یہ تو ایک مسئلہ ہے اس کے علاوہ معاشی مسائل گھمبیر ہیں کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کی معاشی خودمختاری یا اُسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا گیا، وہ بیرونی امداد کے سہارے پر ہے، طالبان کے لئے یہ ایک چیلنج ہوگا کیونکہ اگر دنیا ان کے طرزحکومت سے متفق نہ ہوئی تو مالی امداد نہیں دے گی پھر کیا ہوگا، اس کے ساتھ پاکستان سے جو تجارت ہے وہ محدود ہے، اس کا انحصار بھی امن و امان کی یقینی پر ہے دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ پاکستان نے طالبان کی اب تک بڑی مدد کی ہے، طالبان کو مثبت رویہ دکھانا ہوگا کیونکہ ہماری سرحدیں ملتی ہیں، ہم بہت مددگار ہوسکتے ہیں، افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز پر پاکستان کے کچھ نہ کچھ اثرات ہیں جس کی مدد سے امن وامان اور استحکام پر کام کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر سید محمد علی: طالبان نے اچانک افغانستان پر قبضہ نہیں کیا بلکہ یہ ایک طویل پروسیس کے ذریعے ہوا ہے، دوحہ مذاکرات سے طالبان کی کامیابی کا سلسلہ شروع ہوا کیونکہ امریکا نے اس کے ذریعے طالبان کو ایک فریق تسلیم کرلیا۔ ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں زلمے خلیل زاد سے مذاکرات ہوتے رہے، گفتگو کے ان طویل سلسلوں میں ہر بات طے کی جاتی رہی ہے، برطانیہ کے موقف کو دیکھیں تو اس کے کچھ تحفظات ہیں مگر جنگ وہ بھی نہیں چاہتا، برطانیہ نے تو بہت پہلے ہی اپنے فوجی نکالنے کا اعلان کردیا تھا، اب طالبان کو تسلیم کرنے کے معاملے میں کچھ الجھاؤ ہے، لیکن بالآخر انہیں تسلیم کرلیا جائے گا، کیونکہ طالبان نے کابل کا کنٹرولڈ سنبھالنے کے بعد اپنے رویے میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے، کوئی قتل عام نہیں کیا، عام معافی کا اعلان کیا، تمام فریقین کو حکومت میں شامل کرنے کا عندیہ دیا، یہ ساری چیزیں طالبان کے حق میں جاتی ہیں۔ برطانوی آرمی چیف نے بھی اسی پیرائے میں یہ کہا کہ طالبان کے رویوں سے مستقبل کے اقدامات کریں گے، اب مسئلہ طالبان اور داعش کے ٹکراؤ کا آئے گا، طالبان امن نافذ کرنا چاہیں گے جبکہ داعش دہشت گردی کے ذریعے حالات خراب کرنے کی کوشش کریں گے، طالبان کے لئے جہاں بہت سے مشکلات اور چیلنجز ہیں وہاں یہ بھی ایک بڑا مسئلہ رہے گا، میرے خیال میں طالبان بھی جنگ سے تھک چکے ہیں، وہ پُرامن افغانستان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں لیکن جو لوگ امن کے دشمن ہیں وہ کوئی نہ کوئی شرارت کریں گے تاکہ خانہ جنگی ہوجائے۔
عظیم ایم میاں (صحافی و تجزیہ کار): افغانستان میں جس انداز سے امریکی افواج کا انخلا ہوا ہے اس سے امریکا میں جوبائیڈن پر شدید تنقید ہورہی ہے جبکہ دوسری جانب طالبان کو ایک دو تین نہیں بلکہ کئی چیلنجز کا سامنا ہے، انہیں مغرب کو مطمئن کرنا ہے کہ وہ گوریلا جنگ سے تائب ہو کر ایک سیاسی گروہ میں تبدیل ہوگئے ہیں، دوحہ میں جس انداز سے ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں طالبان نے مذاکرات کئے ہیں وہ اہم نہیں۔ انہوں نے کسی مترجم کے بغیر براہ راست انگریزی میں مذاکرات کئے، جس سے ان کے سیاسی اور ڈپلومیٹک طور پر گروم ہونے کا احساس ہورہا ہے، گزشتہ دنوں ملا عبدالغنی برادر کی امریکی CIA سے ملاقات اہم ہے، طالبان کا مذاکرات پر زور دینا ایک اہم تبدیلی ہے، اندرونی طور پر بھی انہوں نے مختلف گروپس کے ساتھ مذاکرات کئے اور تمام اسٹیک ہولڈر کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے، عبداللہ عبداللہ اور احمد مسعود کے ساتھ جس انداز سے گفتگو کی ہے وہ بڑی اہم پیش رفت ہے، طالبان کا رویہ خاصا مثبت نظر آ رہا ہے، ان میں ماضی کی انتہاپسندی نظر نہیں آ رہی، اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملات آگے کس طرح چلتے ہیں، اگر حکومت سازی کے بعد ان کا رویہ سخت نہ ہوا۔
نصرت مرزا (چیئرمین رابطہ فورم انٹرنیشنل): افغانستان میں امن سب کا خواب ہے لیکن امن معاہدے اور امریکا کے افغانستان سے نکلنے کے باوجود جنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکا، امریکا مکمل طور پر انخلا نہیں چاہتا، وہ پاکستان پر نظر رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے، امریکی وزیردفاع جنرل آسٹن کا موقف ہے کہ افغانستان سے مکمل طور پر نہیں نکل سکتے، ہم اپنی اسپیشل فورس کو وہاں رکھیں گے اور محدود پیمانے پر ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے، چین اور روس امریکا کی نئی حکمت عملی سے نمٹنے کے لئے منظم منصوبہ بندی کررہے ہیں کیونکہ ان ممالک کے خطے میں گہرے مفادات و اثرات ہیں، روس اپنی ماضی کی شکست کا بدلہ چاہتا ہے جب کہ چین اپنی بالادستی کی کوششوں کو کامیاب بنانا چاہتا ہے۔
رابطہ فورم انٹرنیشنل کے زیراہتمام ویبنار افغانستان میں طالبان کی فتح اور خطے میں امن و استحکام کے مواقع
RELATED ARTICLES